تاجر دوست اسکیم کیخلاف 3 روزہ ملک گیر شٹر ڈاون پر مشاورت کررہے ہیں،مرکزی تنظیم تاجران پاکستان

208

اسلام آباد (نمائندہ جسارت)صدر مرکزی تنظیم تاجران پاکستان محمد کاشف چودھری نے کہا ہے کہ ریاست پاکستان میں کینسر زدہ اور بوسیدہ نظام کی وجہ سے نہ تو تجارت فروخت پا رہی ہے اور نہ ہی صنعت کا تحفظ ہو رہا ہے دولت سکڑ کر چند ہاتھوں تک مرتکز ہو رہی ہے سفید پوش غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے،44 قسم کے ٹیکسز اور 125 قسم کی ریگولیٹری باڈیز کی موجودگی میں کاروبار کرنا کسی جہاد سے کم نہیں ہے ایسے حالات میں ایمانداری اور دیانتداری سے کاروبار کرنے پر تاجروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،بجلی اور سوئی گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ائی پی پی کے ملک دشمن معاہدوں سمیت مہنگائی کے خلاف امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے ایک امید کی کرن پیدا کی ہے جنہوں نے اس کرپٹ
اور ظالم نظام کے خلاف اواز بلند کی اور اج ان کی اواز ایک توانا اواز بن کر پوری قوم کی اواز بن گئی ہے ہم نے 28 اگست کو شاندار شٹر ڈا¶ن ہڑتال کی جس میں پورے ملک کے تاجروں نے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا حکومت نے تاجر دوست اسکیم نافذ کر کے تاجروںکی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے ‘ ہم تاجروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں تاجر دوست اسکیم کے خاتمے کے لیے ایف بی ار سے مذاکرات بھی ہو رہے ہیں دوسری جانب ہم دوبارہ ملک گیر شٹر ڈا¶ن کے لیے اپنی حکمت عملی بھی طے کر رہے ہیں اگر حکومت نے تاجر دوست اسکیم کو واپس نہ لیا تو پہلے مرحلے میں تین دن کے لیے شٹر ڈا¶ن اور اس کے بعد دوسرے مرحلے میں غیر معینہ مدت کے لیے پہیہ جام کر دیں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام اباد چیمبر آف کا¶نٹرس اینڈ انڈسٹری میں حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ کاشف چودھری نے کہا کہ رزق کے 10 حصے ہیں جس میں سے 9 حصے تجارت میں ہیں یہ شہادت دی گئی ہے کہ سچا ایماندار تاجر صادقین اور شہداءکے ساتھ اٹھایا جائے گا ‘ اگر ہم اسلام کے اصولوں کے مطابق تجارت کریں گے تو ہمیں دنیا و اخرت میں کامیابیاں ملیں گی جب تک مسلمانوں نے اسلام کے اصولوں کے مطابق تجارت کی تو انہوں نے اپنے عمل و کردار سے اسلام کو دنیا کے اندر پھیلانے کا ذریعہ بنے۔ علوم و فنون تہذیب و تمدن معیشت و تجارت کی دنیا میں مسلمان حکمرانی کرتے رہے لیکن ایک وقت ایسا ایا کہ علوم مسلمانوں کے ہاتھوں سے جاتی رہی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس کی وجہ ایک نظر اتی ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اصولوں کو چھوڑ دیا اسی تناظر میں اج کی دنیا کو دیکھتے ہیں تو اج دنیا میں اسلحے کی نہیں معشت کی جنگ ہے دنیا کے نقشے پر 57 اسلامی ملک ہونے کے باوجود ان کی معیشت مغرب کے کنٹرول میں ہیں پوری دنیا کی معیشت سکڑ کر چند ہاتھوں میں نظر اتی ہے اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام کی نشاط ثانیہ کا سورج طلوع ہو تو تاجروں صنعت کاروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اسلام کے ایمانداری دیانتداری حسن اخلاق کوالٹی سمیت دیگر اصولوں کو اپنانا ہوگا تو پھر چاہے پاکستان کے تاجر ہوں یا مسلم دنیا کے تاجر دنیا کی تجارت و معیشت ان کے ہاتھ میں ہوگی پاکستان اور مسلمان ممالک کے تاجروں کو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہوگا جب ہم پاکستان کے تاجروں کی بات کرتے ہیں تو وہیں ریاست پاکستان کے اندر اس ماحول کو پیدا کرنا بہت ضروری ہے جہاں برابری کے مواقع مہیا کیے جائیں کاروبار کرنے کا سازگار ماحول فراہم کیا جائے یہ سب ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی جس کی وجہ سے معاشرہ بحران کا شکار ہے کاروبار کے لیے ایسا نظام ہونا چاہیے جہاں سرمائے کا تحفظ ہو منصفانہ نظام ہو سازگار ماحول ہو ٹیکس گزاروں کو عزت دی جانی چاہیے جہاں ریاست کے ادارے ٹیکس گزاروں کے خادم ہوں لیکن دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ کینسر زدہ نظام نہ تجارت کو فروخت دے رہا ہے نہ صنعت کا تحفظ کر رہا ہے دولت سکڑ کر چند ہاتھوں میں مرتکز ہو گئی ہے اور سفید پوش غریب سے غریب تک ہوتا جا رہا ہے۔