اہلِ دانش نے اب تک جھوٹ کی صرف تین اقسام بیان کی تھیں۔(1) جھوٹ(2) سفید جھوٹ(3) اعداد و شمار
لیکن موجودہ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے جھوٹ کی چوتھی قسم بھی اعزاز کے ساتھ ایجاد کر ڈالی ہے۔ چنانچہ اب جھوٹ کی اقسام تین سے بڑھ کر چار ہوگئی ہیں۔ یعنی
(1) جھوٹ(2) سفید جھوٹ(3) اعداد و شمار(4) فوجی جھوٹ
عام خیال یہ ہے کہ ہمارے فوجی بالکل بھی تخلیقی صلاحیت نہیں رکھتے۔ رکھتے تو ملک و قوم کا یہ حال نہ ہوتا۔ مگر یہ محض خام خیالی ہے۔ موجودہ ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چودھری نے ایک ہی ہلّے میں اکیسویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ تخلیق کر ڈالا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل صرف اتنی ہے کہ جنرل احمد شریف چودھری صاحب نے یومِ دفاع سے ایک روز پہلے سیاست دانوں کی طرح نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاک فوج نہ کسی سیاسی جماعت کے خلاف ہے اور نہ کسی کی طرف دار۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔
عام خیال یہ ہے کہ پاکستان کی سب سے منظم سیاسی جماعت، جماعت اسلامی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سب سے منظم سیاسی جماعت فوج ہے اور یہ فوج 1954ء سے ایک سیاسی ایجنڈا رکھتی ہے۔ اس سیاسی ایجنڈے کی تفصیلات چونکانے اور دل دہلا دینے والی ہیں۔ امریکا کی یہ روایت ہے کہ وہ اپنی خفیہ دستاویزات کو پچیس تیس سال کے بعد عام کردیتا ہے۔ چنانچہ چند برس پہلے امریکا کی جو خفیہ دستاویزات سامنے آئی ہیں ان سے معلوم ہوا ہے کہ جنرل ایوب ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت 1954ء سے امریکا کے ساتھ رابطے میں تھے اور وہ امریکا کے ذمے داروں کو خط لکھ لکھ کر یہ باور کرا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نالائق اور نااہل ہیں اور وہ پاکستان کو تباہ کرکے رکھ دیں گے اور فوج ہرگز انہیں ایسا نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب جس وقت یہ خطوط امریکیوں کو لکھ رہے تھے وہ ملک کے آرمی چیف تھے اور اسی حیثیت میں ان کا واحد کام صرف ملک کا دفاع تھا۔ مگر جنرل ایوب کے اندر ایک سیاست دان موجود تھا جو ملک کے سیاسی اقتدار پر قبضے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو جنرل ایوب اپنے کام سے کام رکھتے اور امریکیوں کو پاکستانی سیاست دانوں کے خلاف ورغلانے کے لیے خفیہ خطوط نہ لکھتے۔ پاکستان سیاست دانوں نے بنایا تھا کسی جرنیل اور کسی فوج کا پاکستان کی تخلیق میں کوئی کردار نہ تھا، چنانچہ پاکستان کے سیاسی اقتدارِ اعلیٰ کے حقدار صرف سیاست دان تھے۔
جنرل ایوب کو سیاست اتنی ہی عزیز تھی تو وہ فوج سے استعفا دے کر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوجاتے یا اپنی کوئی سیاسی جماعت بنا لیتے مگر انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے آرمی چیف کی حیثیت میں ہی ایک سیاسی ایجنڈا ایجاد کرلیا اور وہ نہ صرف یہ کہ اس سیاسی ایجنڈے کے تحت امریکا کو خفیہ خطوط لکھنے لگے بلکہ انہوں نے 1958ء میں ملک پر مارشل لا مسلط کرکے ملک کے سیاسی اقتدار اعلیٰ پر قبضہ کرلیا۔ جنرل ایوب نے ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت ملک کی ساری سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ انہوں نے اخبارات پر کالے قوانین مسلط کرکے آزادی رائے کا گلا گھونٹ دیا۔ ملک میں صدارتی انتخابات کا مرحلہ آیا تو مادرِ ملت اور قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح جنرل ایوب کی حریف بن کر اُبھریں۔ فاطمہ جناح پاکستان کی حقیقی وارث تھیں۔ ان کے بھائی نے پاکستان تخلیق کیا تھا۔ فاطمہ جناح پاکستان کے لیے جنرل ایوب سے ہزار گنا بہتر تھیں۔ مگر جنرل ایوب نے ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت فاطمہ جناح کی کردار کشی کی۔ انہوں نے قومی اخبارات میں آدھے آدھے صفحے کے اشتہارات شائع کرائے۔ ان اشتہارات میں کسی ثبوت کے بغیر فاطمہ جناح کو بھارت کی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔
جنرل ایوب کے بعد جنرل یحییٰ منظر عام پر آئے۔ انہوں نے ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت 1970ء میں انتخابات کرائے، جنرل یحییٰ کے زمانے کے ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیئر اے آر صدیقی نے چند سال پہلے جیو نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ مشرقی پاکستان کے دیہی علاقوں میں مولانا بھاشانی کی جماعت جگتو فرنٹ بہت مقبول تھی چنانچہ جنرل یحییٰ نے ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو ہرانے کے لیے مولانا بھاشانی کو دو کروڑ روپے دیے اور ان سے کہا کہ وہ دیہی علاقوں میں شیخ مجیب کا مقابلہ کریں مگر بریگیڈیئر صدیقی کے بقول بالآخر ایسا ممکن نہ ہوا۔ مولانا بھاشانی کی جماعت نے عوامی لیگ کے خلاف انتخابات میں حصہ نہ لیا۔ بریگیڈیئر اے آر صدیقی سے انٹرویو کرنے والے نے پوچھا کہ مگر فوج اور مولانا بھاشانی کے درمیان ہونے والے معاہدے پر عمل کیوں نہیں ہوا۔ صدیقی صاحب نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل یحییٰ نے پاکستان کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ 1971ء میں بھارت کے ہاتھوں پاکستان کی فوجی شکست پاکستان ٹوٹنے کی اصل وجہ نہیں تھی بلکہ اصل وجہ جنرل یحییٰ خان کا سیاسی ایجنڈا تھا۔
جنرل ضیا الحق نے بھی ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت اقتدار پر قبضہ کیا اور بھٹو کو پھانسی دی۔ جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما پروفیسر غفور نے ایک بار ہمیں بتایا تھا کہ پی این اے اور بھٹو کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تھا۔ بھٹو 30 سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر دوبارہ انتخابات کے لیے تیار ہوگئے تھے مگر جنرل ضیا الحق درمیان میں کود پڑے۔ ذوالفقار علی بھٹو فسطائی ذہن رکھتے تھے مگر جس جرم میں انہیں سزائے موت دی گئی وہ جرم بہرحال انہوں نے نہیں کیا تھا مگر مسئلہ جنرل ضیا الحق کے سیاسی ایجنڈے کا تھا۔ بھٹو زندہ رہتے تو جنرل ضیا الحق کے لیے خطرہ بنے رہتے۔ چنانچہ ایک سیاسی اقدام کے طور پر جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ جنرل ضیا الحق کا سیاسی ایجنڈا ہی تھا جس کے تحت الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو طوفان بنایا گیا۔ جنرل ضیا الحق جماعت اسلامی کراچی سے خائف تھے اور وہ اسے دیوار سے لگانا چاہتے تھے۔ دوسری طرف وہ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کے سر پر ایم کیو ایم کی تلوار لٹکائے رکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے پورا شہری سندھ الطاف حسین کے حوالے کردیا۔
جنرل پرویز مشرف کا ظہور بھی ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت ہوا۔ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے اور ان کے پاس آرمی چیف کو برطرف کرنے کا اختیار تھا مگر جنرل پرویز مشرف نے اپنی برطرفی کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور انہوں نے نواز شریف کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ تاہم ایک مرحلے پر جنرل پرویز امریکا اور سعودی عرب کے دبائو میں آگئے اور ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت انہوں نے میاں نواز شریف کو خاندان سمیت سعودی عرب جانے کی اجازت دے دی۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت نواب اکبر بگٹی اور بے نظیر کو قتل کرایا۔
جرنیلوں کو سیاسی جماعتیں زہر لگتی ہیں اور ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت وہ ہمیشہ سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیتے رہے ہیں مگر جب جرنیلوں کے سیاسی مفادات اور سیاسی ایجنڈے کا تقاضا ہوا انہوں نے خود سیاسی جماعتیں قائم کیں۔ چنانچہ جنرل ایوب نے کنونشن لیگ بنائی، جنرل ضیا الحق نے جونیجو لیگ کو وجود بخشا۔ جنرل پرویز مشرف نے (ق) لیگ تخلیق کی۔ جرنیلوں نے سیاسی ایجنڈے کے تحت نئے سیاست دان بھی خلق کیے ہیں۔ جنرل ایوب نے بھٹو کو بھٹو بنایا۔ جنرل یحییٰ نے مجیب کو مجیب کا روپ دیا۔ جنرل ضیا الحق نے الطاف حسین کو کنگ میکر میں ڈھالا۔ جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی نے میاں نواز شریف کو میاں نواز شریف بنایا۔ عمران خان بھی سیاست میں ’’سیلف میڈ‘‘ نہیں ہیں۔ انہیں بھی جرنیلوں نے عمران خان بنایا۔
یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ جرنیل جب خود اقتدار میں نہیں ہوتے تو بھی سیاسی حکومت انہی کے ایجنڈے پر عمل کررہی ہوتی ہے۔ بے نظیر بھٹو جب پہلی بار اقتدار میں آئیں تھیں تو انہیں بتادیا گیا تھا کہ خارجہ اور داخلہ پالیسی جنرل مرزا اسلم بیگ کے ہاتھ میں ہوگی۔ عمران خان جب تک اقتدار میں رہے جنرل باجوہ کے اشاروں پر ناچتے رہے۔ آج شہباز شریف کی حکومت جنرل عاصم منیر کے اشاروں پر چل رہی ہے۔
جنرل احمد شریف چودھری کی یہ بات بھی اکیسویں صدی کا ایک بڑا جھوٹ ہے کہ فوج کسی جماعت کے خلاف ہے اور نہ کسی کی طرف دار۔ فوج ہمیشہ کسی نہ کسی جماعت کے خلاف ہوتی ہے اور کسی نہ کسی جماعت کے حق میں ہوتی ہے۔ جنرل ضیا الحق پیپلز پارٹی کے خلاف اور جونیجو لیگ کے حق میں تھے۔ جنرل پرویز مشرف نواز لیگ کے خلاف اور باقی جماعتوں کے طرف دار تھے۔ جنرل عاصم منیر اور ان کے زیر اثر پوری فوج پی ٹی آئی کے خلاف ہے اور نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرف دار ہے۔