دو اسپائی ماسٹرز کا انتباہ

236

دنیا انتہائی خطرناک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ کوئی ایک واقعہ کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بڑی طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا لازم ہوچکا ہے۔ اگر بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کم نہ ہوئی تو کسی بھی واقعے کو تیسری عالمی جنگ کے چھیڑنے کا بہانہ بننے کا موقع مل جائے گا۔ یہ باتیں امریکا اور برطانیہ کے خفیہ اداروں کے سربراہوں نے کہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے لندن میں معروف روزنامہ فائنانشل ٹائمز کے زیر ِاہتمام منعقدہ ایک ایونٹ میں برطانوی اور امریکی نیوز ایجنسیوں کو مشترکہ انٹرویو میں سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز اور برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی سکس کے سربراہ رچرڈ مورے نے کہا کہ غزہ میں لڑائی کا روکا جانا لازم ہے۔ یوکرین کی جنگ کو بھی پھیلنے سے روکنا ہے اور اس کے بعد اِسے ختم بھی کرنا ہے۔ سرد جنگ کے بعد کی صورتِ حال میں دنیا کو اس قدر خطرات کا سامنا پہلے کبھی نہ تھا۔ بل برنز کہتے ہیں کہ سخت اور ناپسندیدہ سیاسی فیصلوں اور سمجھوتوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ولیم برنز اور رچرڈ مورے کا کہنا ہے کہ وہ مل کر غزہ میں جنگ بندی کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ فریقین کے درمیان اختلافات کی شدت کم نہیں ہو پارہی مگر کوششیں بھی دم نہیں توڑ رہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طور کشیدگی کا گراف نیچے آئے، تشدد کا دائرہ گھٹے اور فریقین کو ضبط و تحمل سے کام لینے پر آمادہ کیا جاسکے۔
اسرائیل کے یرغمال بنائے جانے والے باشندوں کی رہائی کے لیے نئی تجاویز پر کام ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے چند دنوں میں پیش رفت ممکن ہے۔ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی بیک وقت ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے چند مشکل سیاسی فیصلے بھی کرنا ہوں گے۔ اسرائیل اور حماس کی قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ جو کچھ بھی کرنا ہے جلد کرنا ہے اور سمجھوتے تک پہنچنا ہے۔ مزید قتل و غارت کی گنجائش نہیں۔ ولیم برنز اور رچرڈ مورے کا کہنا تھا کہ جنگ بندی لازم ہے تاکہ غزہ کے شہریوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملے۔ گیارہ ماہ کے دوران غزہ کے شہریوں نے بہت کچھ سہا ہے، ہلاکتیں بہت بڑی تعداد میں ہوئی ہیں۔ فلسطینیوں کی معیشت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ خوراک کا بھی بحران ہے اور توانائی کا بھی۔ معیشت کا پہیہ رکا ہوا ہے۔ پورے غزہ کی آبادی محصور ہوکر رہ گئی ہے۔ ولیم برنز غزہ میں لڑائی رکوانے کے لیے اگست میں مصر گئے، اعلیٰ سطح پر بات چیت کی، یرغمالیوں کی رہائی یقینی بنانے کے معاہدے کے لیے بات چیت کی اور اس بات کی بھرپور کوشش کی کہ کم از کم وقتی طور پر ہی جنگ بندی ہوجائے تاکہ غزہ میں معاملات کچھ تو نارمل ہوں۔
غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ابھی تک ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ امریکی صدر جو بائیڈن بارہا کہہ چکے ہیں کہ معاہدہ بس ہونے ہی والا ہے کیونکہ ایک دو باتوں پر اختلاف رہ گیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے وزیر ِاعظم بن یامین نیتن یاہو واضح کرچکے ہیں کہ جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کے متن پر اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا ہے۔ امریکا اور برطانیہ دونوں ہی اسرائیل کے پکے حلیف ہیں اور دونوں نے غزہ پر اسرائیلی لشکر کشی کی بھرپور حمایت کی ہے۔ برطانیہ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی جْزوی طور پر روک کر اپنی پالیسی تھوڑی سی تبدیل کی ہے تاہم اِس سے کچھ خاص فرق واقع نہیں ہوا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کرانے کے لیے قطر اور مصر کے ثالث بھی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ سوال فریقین کو مطمئن کرنے والی تجاویز کو حتمی شکل دینے کا ہے۔ ولیم برنز کا کہنا ہے کہ ہم نے ہمت نہیں ہاری اور اب بھی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ معاملات کو درست کرنے کے لیے سیاسی عزم بھی پایا جاتا ہے یا نہیں۔ سیاسی سطح پر کمپرومائز کیے بغیر معاملات کو درست کرنا ممکن نہ ہوسکے گا۔ ولیم برنز کہتے ہیں کہ اْنہیں خدشہ ہے ایران اب بھی اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس حوالے سے تیاریاں بھی کر رہا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کو ایرانی دارالحکومت میں قتل کیا گیا تھا اور ایران نے اس قتل کے لیے اسرائیل کو موردِ الزام ٹھیرایا تھا۔
ولیم برنز کہتے ہیں کہ ایک طرف چین انتہائی طاقتور ہوکر ابھر چکا ہے اور دوسری طرف روس اپنے آپ کو منوانے کی راہ پر گامزن ہے۔ اس کے نتیجے میں طاقت کا کھیل مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ روس اپنے آپ کو منوانے کی خاطر بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ روس کے ارادے اور چین کی طاقت مل کر عالمی امن کے لیے عمومی طور پر اور عالمی نظام کے لیے خصوصی طور پر خطرہ بن گئے ہیں۔ ٹیکنالوجیز کے شعبے میں غیر معمولی تیز رفتار پیش رفت نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے، الجھا دیا ہے۔ عالمی نظام کو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے اب تک کے سنگین ترین بحران کا سامنا ہے۔ دونوں بڑے خفیہ اداروں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ دنیا تیسری جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ روس اور چین مل کر امریکا و یورپ کی بالا دستی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ روس ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈا مشینری سے بھی کام لے رہا ہے۔ روس پر امریکا کے عوام انتخابات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔ روس ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے امریکی عوام کو بدگمان کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے۔
(بشکریہ : دی گارجین)