اداروں کی عزت ہونی چاہیے اور ضرور ہونی چاہیے۔ لیکن نہایت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ میرے وطن کا ہر ادارہ آج بے توقیر ہے۔ ملک کے نظام کو درست رکھنے کے لیے ادارے بنائے جاتے ہیں۔ عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے عدالتیں، دفاع کے لیے فوج، قانون سازی کے لیے مقننہ، شوریٰ یا پارلیمنٹ، تعلیم وتربیت کے لیے مدرسہ اسکول، شہری نظام کے لیے بلدیات اور امن و امان کے لیے پولیس کا ادارہ۔ استحکام ملک، قوم، معاشرے اور افراد کی اولین ضرورت ہے۔ عدم استحکام کی صورت میں ہر شعبہ زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر اپنا مقصد کھو بیٹھتا ہے۔
ادارے بے توقیر کیوں اور کب ہوتے ہیں۔ اس کا سب سے اہم اور بنیادی سبب یہ ہے کہ اداروں کا احترام اس وقت ختم ہوتا ہے جب اداروں میں کام کرنے والے افراد اپنی ذمے داریاں درست طریقے سے ادا نہیں کرتے۔ استاد اگر بچوں کی تعلیم اور تربیت کا فرض ادا نہیں کرتا تو مدرسہ محترم نہیں رہتا۔ مدرسہ کو اگر تربیت کے بجائے صرف کمائی کا ذریعہ بنا لیا جائے تو اس کے ذمے داران کی توجہ اصل ہدف سے ہٹ جاتی ہے۔ پھر مدرسہ تدریس و تربیت گاہ نہیں رہتا۔ میرے ملک کی بدقسمتی ہے کہ اس وقت تعلیمی ادارے اپنے مقصد وجود سے کوسوں دور مال بنانے کی فیکٹریاں اور اخلاق بگاڑنے کے مراکز بنے ہوئے ہیں۔ جو مدرسہ کمائی کا ذریعہ بن جائے تو اس کی توقیر کیسے اور کیوں ہوگی۔
میرے وطن کا عدالتی نظام تباہ ہوچکا ہے۔ ججوں کے بارے میں عمومی تبصروں سے دکھ ہوتا ہے۔ فیصلوں پر جانبداری کے الزامات اور بے اعتمادی کسی طور پر بھی پسندیدہ بات نہیں۔ مگر اس کے پیچھے جسٹس منیر اور ’’بابے زحمتے‘‘ جیسے مکروہ کردار فراموش نہیں کیے جاسکتے۔ یہ تلخ سچ ہے کہ عدالتوں کے بارے میں عام تاثر اچھا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالتوں کا ہر بابا رحمتا بابا زحمتا بنا ہوا ہے۔ ججوں کے فیصلے جانبداری کے الزامات کی زد میں ہیں۔ پاکستان کی پوری ستر پچھتر سالہ عدالتی تاریخ میں ایک دو ججوں کے سوا کوئی جج مظلوموں کے دلوں میں عزت وتوقیر نہیں رکھتا۔ مقننہ کا مقصد ملک وقوم کے مفادات و ضروریات کے لیے قانون سازی ہے مگر اس ادارے میں جو لوگ ’’منتخب‘‘ ہوتے ہیں ان کے انتخاب پر ہی سوالات ہیں۔ ملک و قوم ان کی ترجیح نہیں ہوتا۔ ان کی ترجیحات ذاتی اور گروہی مفادات ہوتے ہیں۔ قانون سازی کا محور بھی ان کے اپنے مفادات ہی ہوتے ہیں۔
دفاعی اداروں کا معاملہ بھی دیگر اداروں سے مختلف نہیں ہے۔ ان اداروں کے کرتا دھرتا کرپشن کے الزامات سے بری نہیں ہیں۔ اس ادارے کے ذمے داران خوف کو عزت سمجھتے ہیں۔ آئے دن سڑکوں چوراہوں پر لوگوں پر رعب جھاڑتے گالم گلوچ کرتے اپنی حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ سیاست اور عدالتی معاملات میں مداخلت کے الزامات نے اس ادارے کا احترام ختم اور خوف بڑھا دیا ہے۔ اپنے کام کے سوا بہت سارے کام کرتے ہیں۔ عزت واحترام کے تقاضے پورے کریں تو اہل وطن ان کو سر آنکھوں پر بٹھائیں۔ یہ بات ان کو اچھی نہیں لگتی۔ اس ادارے کے ذمے داران ریٹائرمنٹ کے بعد ملک میں اپنی قوم کے ساتھ رہنے کے بجائے اربوں کھربوں لے کر دوسرے ملکوں میں جا بستے ہیں۔ ایسے لوگ اداروں کی بے توقیری کے ذمے دار ہیں۔
رہی پولیس تو اس سے چور اچکے ڈاکو بدمعاش نہیں ڈرتے بلکہ شریف لوگ خوف زدہ رہتے ہیں۔ اس ادارے کی عزت و توقیر کے بارے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ لوگوں کی رائے اور جمہوری حق کے محافظ ادارے یعنی الیکشن کمیشن کے کردار پر اعتماد تو پہلے ہی ڈانواں ڈول تھا کراچی اور سندھ کے بلدیاتی انتخابات اور فروری کے عام انتخابات کے ڈھونگ نے موجودہ الیکشن کمیشن کے کردار کو فارم سینتالیس کی سیاہی مل کر بالکل ہی ننگا کریا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ادارے کمزور ہوں گے تو ملک کمزور ہوگا۔ یہ بات تشویش ناک ہے کہ ہمارے ہاں کوئی بھی ادارہ مضبوط نہیں ہے۔ ہر ادارہ عوام کی حمایت سے محروم ہے۔ سوال یہ ہے کہ اداروں کو بے توقیر کس نے کیا ہے؟ یقینا کچھ بدخواہ اداروں کو بدنام کر رہے ہوں گے۔ لیکن اگر اداروں کی بے توقیری کے اسباب اندر کے افراد پیدا کرتے ہیں۔ اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے بیرونی سے زیادہ اندرونی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگ جو اداروں کے مقاصد کے خلاف کام کررہے ہیں ان کا احتساب ہوناچاہیے۔ ادارے خوف اور عزت واحترام میں فرق رکھیں۔ لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کے بجائے عزت و توقیر بڑھانے والے کام کریں۔ ہر ادارہ اگر اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھے تو عزت کی بھیک نہیں مانگنی پڑے گی۔