آئی پی پیز کے بارے میں جو انکشافات منظر عام پر آ رہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ سب بااثر اور طاقتور افراد، خاندانوں، اداروں اور گروپوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔ گزشتہ نگران حکومت کے وفاقی وزیر تجارت گوہر اعجاز آج کل اصل حقائق عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے کپیسٹی چارجز کے نام پر 1.93 کھرب روپے آئی پی پیز کو ادا کیے۔ اِسی عرصہ کے دوران 370 بلین روپے بجلی کے صرف تین پلانٹس کو ادا کیے گئے۔ حکومت ایک پاور پلانٹ سے 750 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے۔ 200 روپے فی یونٹ کے حساب سے کوئلے سے بنانے والے پلانٹ سے بجلی خریدی جا رہی ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ اِن ناجائز، کرپٹ معاہدوں کی وجہ سے حکومت جو بجلی صارفین کو تمام اخراجات ملا کر 30 روپے فی یونٹ کے حساب سے فراہم کرسکتی ہے، وہی بجلی صارفین کو 60 روپے فی یونٹ کے حساب سے بیچی جا رہی ہے۔ حبکو اور کیپکو کو 2023ء اور 2024ء میں 46 ارب روپے ادا کیے گئے حالانکہ ان دونوں بجلی گھروں نے ایک یونٹ بجلی بھی پیدا نہ کی۔
پاکستان میں 1991ء تک 60 فی صد بجلی پانی سے پیدا کی جاتی تھی جو نہ صرف سستی تھی بلکہ یہ طریقہ ماحول دوست بھی تھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی صرف 26 فی صد رہ گئی ہے کیونکہ ملک کو درامدی فیول سے بجلی پیدا کرنے والے آئی پی پیز کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔ ان ظالمانہ آئی پی پیز کی وجہ سے گردشی قرضہ تین ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے مگر حکمران خاموش ہیں کیونکہ وہ بھی اس ظلم و ستم میں برابر کے شریک ہیں۔ بجلی کے بلوں نے ایک جانب عوام کی چیخیں نکال دی ہیں جبکہ تجارتی اور صنعتی ادارے بند کیے جا رہے ہیں۔ حکمران اشرافیہ خاموش ہے اور اس نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں کیونکہ آئی پی پیز کے ساتھ ان کے مالی مفادات وابستہ ہیں۔ آج حالات اتنے سنگین ہو چکے ہیں کہ ہر باشعور شہری اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ آئی پی پیز اور پاکستان دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف اور آئی پی پیز کے ہاتھوں پوری طرح یرغمال ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بنائے گئے وفاقی بجٹ برائے سال 2024-25ء کے بعد تو عام آدمی کیا خواص بھی یوٹیلیٹی بلز اور مہنگائی کی دْہائی دینے لگے ہیں۔ ظلم در ظلم یہ ہے کہ یہ آئی پی پیز مالکان کوئی اور نہیں بلکہ عوام کی خدمت، اْن کے دْکھ درد کو بانٹنے کا راگ اِلاپنے والے نام نہاد بڑی پارٹیوں کے کرتا دھرتا، صنعت کار، ریٹائرڈ سِول و فوجی بیوروکریسی میں اْن کے رشتہ دار یا منظورِ نظر لوگ ہی ہیں۔90 آئی پی پیز کمپنیوں میں 28 فی صد کا مالک شریف خاندان ہے، 16 فی صد ن لیگی رہنما ہیں، 16 فی صد زرداری صاحب ہیں، 10 فی صد اسٹیبلشمنٹ، 8 فی صد پیپلزپارٹی کے رہنماء ہیں، 7 فی صد عرب سرمایہ دار (قطری) ہیں، 7 فی صد پاکستانی سرمایہ کار ہیں۔ المیہ دیکھیں کہ 78 فی صد آئی پی پیز صرف تین گروپس یعنی شریف، زرداری، اسٹیبلشمنٹ کی ملکیت ہیں۔ 90 فی صد لوگ یا گروپس ایسے ہیں جن کے پاس تمام شوگر ملز، اسٹیل ملز، سیمنٹ، کھاد، کپڑے، بینک، ایل پی جی اور گاڑیاں بنانے کے لائسنس ہیں۔ مزید حیران کْن بات یہ ہے کہ پاکستان کی کل ضرورت کا 125 فی صد پیدا کرنے کی صلاحیت بتا کر لگائے گئے یہ بجلی گھر صرف 48 فی صد بجلی پیدا کرکے 125 فی صد بجلی کی قیمت وصول کررہے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران اِن آئی پی پیز کو 6000 (چھے ہزار) ارب روپے دینے کے باوجود ملک اب بھی اِن کا 29 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے۔ آئی پی پیز میں اِن رشتہ داریوں اور حصہ داریوں کی وجہ سے کوئی سیاسی جماعت یا اْس کے رہنما، ماسوائے امیر جماعت ِ اسلامی حافظ نعیم الرحمن اور جماعت کے دیگر قائدین کے، کْھل کر اِن آئی پی پیز کے ظلم و ستم کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہے۔ لیکن اب عوام کو بھی سمجھ میں آنا شروع ہو گیا ہے کہ ان کو مقروض کرنے والے، ان کے بچوں کے مستقبل کے قاتل کوئی اور نہیں بلکہ اْن کی خدمت کا ڈھونگ رچانے والے، ان کے اردگرد بسنے والے سیاسی پنڈت ہی ہیں، جن کے پْرکشش نعروں اور وعدوں پر وہ آج تک تالیاں بجاتے آ رہے ہیں۔
دوسری طرف آئی ایم ایف نے مزید آٹھ ارب ڈالر دینے کے لیے جو تازہ شرائط عائد کی ہیں اْن کے نتیجے میں اب ٹیکسز، ود ہولڈنگ سے کوئی چیز نہیں بچی۔ آئی ایم ایف کا تازہ ترین فرمان جاری ہوا ہے کہ اس نے 6 سے 8 ارب ڈالر کے ساتھ سعودی عرب کے 5 ارب، چین کے 4 ارب، متحدہ عرب امارات کے 2 ارب قرضوں کی تین سے پانچ سال کے لیے مزید توسیع کی شرائط عائد کردی ہیں۔ پورا ملک آئی ایم ایف اور آئی پی پیز کے چنگل میں ہے۔ وفاقی بجٹ میں ہر چیز پر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ ایک طرف بجٹ میں لگائے گئے ٹیکسوں کی وجہ سے ادارے اور صنعتیں بند ہیں، تو دوسری طرف سرکاری اداروں کی نجکاری کی وجہ سے ملازمین سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں، پنشنرز اپنی جگہ رو رہے ہیں۔ سیاست ضد، اَنا کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے، ملک کے لیے سوچنے کے بجائے ایک دوسرے
کو نیچا دکھانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ٹیکسوں کی اس بھرمار اور معیشت دشمن پالیسی کے خلاف عوام الناس سمیت تاجر، صنعت کار، دکان دار سبھی سراپا احتجاج ہیں۔ امیر جماعت ِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے 28 اگست کو ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی ہے، تمام صنعتی، کاروباری ادارے، تاجر برادی، دکان دارحضرات، مزدور و محنت کش طبقات نے جماعت ِ اسلامی کے اس ملک گیر شٹر ڈاؤن کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا اور تاریخی ہڑتال کی۔
قرضوں اور سْود کی بنیاد پر قائم معیشت کبھی بھی ملک و قوم کا سہارا نہیں بن سکتی۔ تمام قسم کے بحرانوں کا حل اللہ اور اْس کے پیارے حبیبؐ، خاتم الانبیاء والمرسلین سیدنا محمد مصطفیؐ کی تابعداری میں ہے۔ بحیثیت ِ مسلمان ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم اْس راستے کو اختیار کریں جسے اللہ اور اْس کے رسولؐ سے جنگ قرار دیا گیا ہے۔ دینی غیرت و حمیت کا تقاضا ہے کہ ہم اب مزید ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سْودی نظامِ معیشت سے باہر نکل آئیں، تاکہ اللہ کی خاص رحمت و مغفرت ہماری طرف متوجہ ہو اور ہم زحمت والے ماحول سے نکل کر اللہ اور اْس کے رسول کہ رحمت کے سائے میں آجائیں۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا پختہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ محض مادی وسائل ہی تعمیر و ترقی کے لیے کافی نہیں ہوتے، مادی وسائل کے ساتھ ساتھ اللہ اور اْس کے رسولؐ کی لائی ہوئی شریعت پر کاربند رہتے ہوئے زندگی گزارنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس لیے ملک کو خودانحصاری کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے قرضوں اور سْود کی معیشت سے جان چھڑانا ہوگی۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمران اس حقیقت کا اب بھی ادراک نہیں کرپا رہے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران مقامی بینکوں سے 38 ارب روپے کے قرضے حاصل کیے گئے، جبکہ 8500 ارب روپے کے نئے قرض کا پلان ہے۔
(جاری ہے)