اتنے بھی بے حس نہ بنیں کہ حق کا ساتھ بھی نہ دے سکیں، خالی خالی باتیں بنانے، لوگوں کو ٹالنے اور لالی پاپ دینے سے منافقت اور دشمنی ہی جنم لیتی ہے۔ کیا حکومت اور کیا حکومتی ادارے؟ انہیں عوام کے دکھ درد تکلیف کا احساس ہی کیوں ہو گا جو خود انہیں تکالیف دینے پر تْلے ہوں، کوئی بھی تو سکون چین اور امن کے کام ان سے انجام نہیں ہو پا رہے ہیں، عوام مستقل تکالیف سہہ سہہ کر ادموے ہوئے جا رہے ہیں، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی! ظاہر ہے جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو کیا ہوتا ہے؟ پریشر ککر بھی پھٹ ہی جاتا ہے۔ صبر کی بھی انتہا ہوتی ہے! 14 دنوں تک لوگ سڑکوں پر موسم کی سختیوں، تنگیوں کے باوجود دھرنا دیے رہے اپنا سکھ چین قربان کر کے کیا چاہ رہے تھے؟ حق کی خاطر، ظلم کی خاطر بھی نہ نکلو گے، نہ ساتھ دو گے تو کیسے معاملات سدھریں گے؟ کیسے مسائل حل ہوں گے؟ کیوں ہم اپنوں کا دکھ درد نہیں سمجھتے؟ ہم کیسے لوگ ہیں؟ کہ ہمیں حق کی جدوجہد کرنے والوں کا بھی ساتھ دینا مشکل لگ رہا ہے؟ حکومتی ادارے بے حس بنے ہوئے ہیں۔ خود حکمران طبقہ اپنی مراعات، سہولتوں کو کسی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں۔ جان جائے مگر عوام کو ریلیف دینے کو بالکل تیار نظر نہیں آتے، کیا مذاق سمجھا ہوا ہے؟ پاگل بنا دیا ہے عوام کو! عوام پر ٹیکس پر ٹیکس لگا لگا کر ظلم کر رہے ہیں۔ آئے دن اموات کا سبب کہیں گیس، بجلی کے بل اور کہیں ڈاکٹروں کی فیس ادویات کے خرچے اور نہ جانے کیا کیا۔ کرائے کا تو پوچھیں ہی نہیں، پٹرولیم مصنوعات مستقل عذابِ جان بنی ہوئی ہیں تو اوپر سے رہی سہی کسر ٹوٹی پھوٹی اجڑی سڑکیں، گڑھے اور پتھریلے دشوار گزار راہوں نے پوری کر دی ہے، لوگوں کا جینا اجیرن کر دیا ہے تو ساتھ ہی رکشہ، ٹیکسی ڈرائیورز اپنی گاڑیوں کی ریڑھ لگوانے پر اپنی زندگیوں سے خفا ہیں، کسی کا تو لحاظ کر لیں! نوکریاں نہیں نہ ہی ملنے کے امکانات ہیں، آگے بھی کوئی بھلے اقدامات نظر نہیں آرہے۔ وزیروں کے تو کیا ہی کہنے، ترقی اور سیاسی استحکام لانے کے لیے کتنی ہی تگ و دو کرنی پڑتی ہے نہ کہ گھسی پٹی کہانیاں دہرا دہرا کر عالمی مالیاتی فنڈ اور آئی ایم ایف کا ہی رونا رویا جائے؟ ہر غیر آئینی طریقے مراعات یافتہ لوگ اپنائیں اور سزا پائیں عوام، کتنی ستم ظریفی ہے۔
مصنوعی قیادتیں کبھی بھی عوام کو حقیقی معنوں میں کوئی ریلیف تو کیا دیں گی انہیں صرف عوام کو لوٹنے ہی کی فکر ہوتی ہے! اور وہی تو ہو رہا ہے نہ نوکریاں کھل رہی ہیں نہ ادارے فعال ہیں۔ نہ تحفظ ہے نہ امن و امان ہے۔ ایک بے سکونی اور بے قراری کی فضا ہے ہر بندہ پریشان خوفزدہ اور غیر مطمئن! کیونکہ اتنے چکروں میں الجھایا ہوا ہے کہ پسے ہوئے عوام کو صرف روٹی کپڑے مکان کے تو کیا لالے پڑنے تھے تالے پڑے نظر آرہے ہیں! ترقی کے جھوٹے دعویدار خود ہی بے نقاب ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ہمیں بھی شعوری طور پر اپنے حق کے لیے اٹھنا ہوگا۔ مسائل کا حل صرف سمجھداری میں ہے بیداری میں ہے۔ آپ سب کے سامنے ہے کتنے متحرک تحریکی کارکن اپنی حیثیت کے مطابق کام کر رہے ہیں انہیں سب کے تعاون اور متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ تنکے یکجا ہو جائیں تو مضبوط جھاڑو سے کام آسان، صفائی آسان اور بْرے نظارے بْری چیزوں بیکار اشیاء سے ماحول خود بخود صاف ہو کر نئی جہد کے لیے تیار ہو جاتا ہے لہٰذا ہم سب کو اپنی اور آنے والی تکالیف کا بخوبی اندازہ ہے ہمیں اپنوں کے ساتھ مکمل ہمدردی اور تعاون سے دلی اور جذباتی وابستگی رکھتے ہوئے ملک کی بقا، امن، خوشحالی اور سلامتی کے لیے جماعت اسلامی کو سپورٹ کرنا ہوگا یہی واحد حل ہونا چاہیے پوری قوم جماعت کی پشتی بان بنی ہوئی ہے اور مستقل سدھار کی کوشش کر رہی ہے لیکن شاید حکومت کو عوامی طاقت کا اندازہ بھی نہیں ہو رہا۔
قابل ِ عمل باتوں کو مذاق سمجھا ہوا ہے! کیسے مسائل کا حل نکلے گا اور کون نکالے گا؟ کیا یوں ہی ملک آگے چل سکتا ہے؟ سب لوگ مل جل کر خصوصاً حکمران طبقہ اور اس سے متعلقہ تمام سرپرست ادارے اور مخیر حضرات سنجیدگی سے اس مسئلے کا حل نکالیں اور عوام کو مزید مشکلات اور اذیت کا نشانہ نہ بننے دیں، ور نہ تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہر بندہ آن لائن ہے۔ اللہ سے رحم مانگیں اس کا انصاف بڑا ہی شدید اور وہ جلد ہی پکڑنے والا ہے۔ اپنے عہدوں کا اور اختیار کا موثر اور پرامن استعمال ہی پاکستان کا امن اور سلامتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمے داریوں کو بہترین طریقے سے ادا کرنے اور ایک سچے پکے مسلمان کی تمام تر صفات نبھانے کی توفیق دے آمین۔ اپنی نیتیں درست کریں دعاؤں کے ساتھ اپنی سکت کے مطابق تعمیری کردار ادا کرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی قدردان ہے۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی، رات کتنی ہی تاریک ہو صبح روشن ہی اس کا انجام ہے۔ مری روڈ پر 14 دن کے دھرنے سے اُمید کی جو نئی کرن پھوٹی ہے اللہ تعالیٰ اسے مکمل اور منور کر دے، پاکستان جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا ہم اسے وہ مقصد دے کر دونوں جہاں میں سرخرو ہو سکیں۔ آمین۔
ہمارے مسلمان فلسطینی ہم سے کبھی مایوس نظر نہ آئیں۔ اگرچہ بڑی ہی کوتاہیاں ان کے حق میں ہم نے بھی کی ہیں مگر اللہ ہمارے دکھی اور مغموم دلوں کی پکار بھی سن لے اور ہمیں اس کا حق ادا کرنے کے معجزاتی مواقع فراہم کر دے آمین۔ جب ہم اپنے ملک میں امن چاہیں گے مسلمان اور انسانیت کے لیے امن کے خواہاں ہوں گے تو یقینا اللہ بھی ہمارا ساتھ دے گا حق تو پھر حق ہے اس کی ہر جگہ جیت ہے۔