بِلّے کے ٹولے سے دودھ کی رکھوالی کا فیصلہ کرنے والوں کا یہ نتیجہ ہی نکلنا تھا کہ سب کہہ اُٹھے کہ ملک کے دیو اور اُن کے حواریوں نے ملکی معیشت کو دیوار سے لگادیا ہے اور ملک کے ماہر معیشت قیصر بنگالی نے دن میں دیا جلا کر ہر خاص و عام کو بتادیا ہے کہ ملکی معیشت کا دیوالیہ نکل گیا ہے اور حکمرانوں نے دیونگری سمجھ کر ان میں کس کو کھائوں کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے اور ہل من مزید نے قرض کی صدا لگائی ہوئی ہے۔ ’’آئی پی پیز‘‘ کو سب ٹیکس معاف ہیں اور ان لاڈلوں کے پلانٹس کو ہلے جلے چلے بغیر بھی بارہ سو ارب روپے کی خطیر رقم جو عوام کے لہو پسینے سے ظلم کرکے اینٹھا گیا وہ لہو پلا دیا کہ خوش رہو کیا یاد کرو گے ہم تمہارے رکھوالے ہیں۔ ان ملکی دیوتائوں کو ماہرین بتا بتا کر تھک ہار گئے ہیں کہ خدا کو مانو اپنے اللے تللے اخراجات کم کرو، یہ بات یاد رکھو آمد ہودس، خرچ ہو، بیس تو زمانہ اُس کو دیتا ہے پیس، نبی کا کلمہ پڑھنے والوں، حج عمرہ کرکے ربّ کی حاکمیت اور شریعت کی پاسداری کا کیا دکھاوا کرتے ہو۔ نبی اکرمؐ نے تو جنگ خندق کے موقع پر ایک صحابہ کی طرف سے بھوک کی وجہ سے پتھر بندھا ہوا ملاحظہ کیا تو اُسے دکھایا کہ دیکھو میرے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں تو صحابہ کو قرار آگیا کہ قائد ایسے ہوئے ہیں ’’مگر ایسے کہاں سے لائیں تجھ سا کہیں جسے‘‘، بالکل حقیقت ہے، نہ کوئی ایسا ہوا نہ ہوگا، مگر ایسا بھی ہوا ہے اور ہوتا آیا ہے کہ سیدنا عمرؓ جیسا جلیل القدر حکمراں وقت بیت المال کے بھرے خزانہ سے صرف نانِ نفقہ کے لیے نہایت معمولی ناقابل الذکر رقم لیتے تھے اس کے سوا کچھ لینا حرام سمجھتے تھے۔ آپ نے اس اعتراض پر کہ آپ کے قد کاٹھ کے حساب سے تقسیم کردہ کپڑے سے آپ کا کرتا نہیں بن سکتا تھا کیسے بنا تو آپ نے اپنے فرزند عبداللہ بن عمرؓ کو جواب دینے کو کہا۔ آپ نے بتایا کہ میں نے اپنے حصے کا کپڑا بھی والد صاحب کو دیا جس سے یہ کرتا بنا ہے۔ سیدنا علیؓ ساری عمر معمولی سے مکان میں گزاری۔ گھر میں کوئی قابل الذکر اثاثہ نہ تھا ایک مینڈھے کی کھال سے فرش خواب کا کام لیا جاتا تھا اوڑھنے کی چادر تھی جو سر اور پائوں کے ڈھانکنے کو بھی کافی نہ تھی۔ آپ کی زوجہ محترمہ نبیؐ کی دختر نیک اختر سیدہ فاطمہؓ سارا کام خود کرتی تھیں۔ چکی پیستے پیستے ہاتھوں پر نشان پڑ گئے، یہ تھے امت مسلمہ کے اسلاف جن کے رعب سے کفر کے ایوان کانپتے تھے۔ انہوں نے دھرتی کے ایک بڑے حصے کو دنیاوی ناخدائوں سے آزاد کراکر ربّ کے غلاموں کے سپرد کردیا۔ اور پھر دنیائے عالم نے دیکھا کہ ربّ کی خیروبرکت ایسی ان خطوں پر برسی کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا۔ لوگ پوٹلی لیے پھرتے تھے مگر مستحق کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ موجودہ حکمرانوں نے لوٹ مچائی اور اپنے ووٹوں کو محفوظ بنانے کے لیے بھیک منگوں کی ایک کھیپ کھڑی کرکے ان لاکھوں گھرانوں کو ناکارہ کرکے رکھ دیا جن کا اس بے نظیر انکم سپورٹ کے نشے پر گزارا ہے۔ قیصر بنگالی کی تجویز ہو یا حفیظ پاشا اور ڈاکٹر عشرت حسین کی سفارشات، اپنی جگہ پر مگر حل صرف اسلامی نظام ہے اور متقی افراد کی حکومت ہے۔ ویسے ان دیوتائوں نے تو ملک میں رائج زکوٰۃ کے نظام کا ہلواڑہ کردیا اور شیرمادر سمجھ لیا، اچھی صالح قیادت جو خوف خدا کی حامل اور شریعت کی پابند ہو ملک کو اس دلدل سے نکال سکتی جو بڑی تیزی سے نگل رہا ہے۔ ملک میں جماعت اسلامی کی صورت میں اس گئے گزرے دور میں صالح اور آزمودہ، کرپشن کے مقدمات سے پاک قیادت موجود ہے اس کو راہ دیں، روکے نہیں، یہ ہی حل ہے۔