تعلیمی اداروں میں منشیات کی لت کا بڑھتا ہوا خطرہ: ضیاء الدین یونیورسٹی میں ڈائیلاگ کا انعقاد

221
Increasing risk of drug addiction

کراچی: ضیاءالدین یونیورسٹی کی جانب سے ’ ’ تعلیمی اداروں میں منشیات کی لت کا بڑھتا ہوا خطرہ ‘ ‘ کے موضوع پر بائیسویں ضیاءالدین یونیورسٹی ڈائیلاگ کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافے کے بارے میں بیداری بیدار کرنا ، اس کی بنیادی وجوہات کی نشاندہی اور کیمپس کی حفاظت کے لیے طلباء، اساتذہ اور والدین کے درمیان تعاون کو فروغ دینا تھا۔

ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے ضیاءالدین یونیورسٹی کی پرو چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ندا حسین کا کہنا تھا کہ ’ ’ ہمارے تعلیمی اداروں میں منشیات کی لت ایک ٹک ٹک ٹائم بم بن چکا ہے، جس سے ایک پوری نسل کے مستقبل کو خطرہ ہے۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں بلکہ ایک مکمل طور پر پھیلنے والا بحران ہے۔ آئے دن ہمارے طالب علم مختلف طرح کی منشیات کی لت کا شکار بنتے جارہے ہیں جو ان کے دماغوں اور ان کی زندگیوں کو تباہ کررہا ہے۔ اگر ہم نے ان کو قابو کرنے کیلئے فوری اور سخت اقدامات نہیں اٹھائے تو یقینا ہم اپنے مستقل کے معماروں کو کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، یہ ایک جنگ ہے، اور ہمیں اپنے نوجوانوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اپنے خطاب میں پروفیسر ڈاکٹر ندا حسین نے بڑھتے ہوئے بحران کی سنگینی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارے تعلیمی ادارے جو کبھی سیکھنے کی پناہ گاہیں تھے، کو منظم نیٹ ورکس کے ذریعے ناجائز اشیاءکی تقسیم کے مراکز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر ضیاءالدین یونیورسٹی میں ہم نے سخت زیرو ٹالیرنس پالیسی کے قوانین نافذ کر رکھے ہیں۔‘ ‘

انہوں نے اساتذہ، والدین، پالیسی سازوں، اور کمیونٹیز سے طلباءکی حفاظت اور ان تعلیمی ماحول کی سالمیت کو بحال کرنے کے لیے فوری اور اجتماعی کارروائی کا مطالبہ کیا، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ تعلیمی ادارے ترقی اور فکری ترقی کی جگہیں رہیں۔

جامعہ کراچی میں کلینیکل سائیکالوجی کے ممتاز پروفیسر ڈاکٹر سلمان شہزاد نے ورلڈ بینک کی 2019 کی رپورٹ کے خطرناک اعدادوشمار پر روشنی ڈالی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ 43 فیصد نوجوان الکحل اور دیگر نشہ آور اشیاءاستعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں تقریباً نصف بچوں کی آبادی منشیات تک رسائی رکھتی ہے، جن میں سے 44.9 فیصد شراب نوشی کرتے ہیں۔ یہ واضح اعداد و شمار اس بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے قومی مداخلت اور فیصلہ کن کارروائی کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

ضیاءالدین یونیورسٹی کے کالج آف کلینیکل سائیکالوجی کی پرنسپل ڈاکٹر سارہ جہانگیر نے منشیات کے استعمال کے بارے میں نوجوانوں کے ساتھ ہمدردی اور غیر فیصلہ کن انداز میں مشغول ہونے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ گھر میں اپنے بچوں اور اسکول میں طلباءسے بات چیت کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ پوچھنے کے بجائے کہ وہ منشیات کیوں لیتے ہیں، پوچھیں کہ کیا اس سے انہیں فائدہ ہوتا ہے، اور پھر مشاورت کا عمل شروع کریں۔

ممتاز اسلامی اسکالر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی نے بچوں کی مؤثر طریقے سے پرورش کے لیے اخلاقی، جسمانی، جمالیاتی، فکری اور روحانی پرورش کے اصولوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسکولوں سے یونیورسٹیوں تک کے تعلیمی سفر میں روحانیت کو مربوط اور خاص طور پر اللہ سے تعلق کو فروغ دینا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روحانی اور اخلاقی رہنمائی بچوں کو نقصان دہ اثرات کے خلاف مزاحمت کرنے اور بامقصد زندگی گزارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس موقع پر سابق پاکستانی کرکٹر سکندر بخت نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کے دوست بنیں۔ طالب علموں اور نوجوانوں میں منشیات کی لت کے خلاف حفاظت کی سب سے بڑی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔

ضیاءالدین یونیورسٹی کے ڈائیلاگ سیشن میں اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد عنایت اللہ خان نے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے متحد کوششوں کی اہم ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے طلباءکے لیے محفوظ اور صحت مند تعلیمی ماحول کو فروغ دینے کے لیے یونیورسٹی کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔