پڑوسی مجھے بندریا کہتے تھے، ایک ایتھلیٹ کی دُکھ بھری کہانی

320

پیرس پیرالمپکس میں بھارت کے لیے 400 میٹر کی دوڑ میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی دیپتی جیوانجی نے انڈیا ٹوڈے سے گفتگو کے دوران بتایا ہے کہ اُس کا سفر بہت سی مشکلات سے بھرا رہا ہے۔ وہ بچپن ہی سے معذور تھی مگر اُس میں بہت کچھ کرنے کا جذبہ تھا۔ وہ اپنی معذوری کے باوجود کچھ نہ کچھ کر دکھانے کے لیے بے تاب رہتی تھی اور کوششیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں۔

دیپتی جیوانجی نے بتایا کہ اُس کی حوصلہ افزائی کرنے والے برائے نام تھے۔ جب وہ پیدا ہوئی تو اُس کی ہیئت اور معذوری دیکھتے ہوئے بہت سوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ یہ بچی کسی کو دے دیں، یتیم خانے کے حوالے کردیں۔ چاند گرہن کے موقع پر پیدا ہونے کے باعث لوگ اُسے منحوس سمجھتے تھے اور دور دور رہتے تھے۔ دیپتی جیوانجی جب دوڑنے کی مشق کیا کرتی تھی تب اُس کی معذوری کو دیکھتے ہوئے پڑوسیوں نے اُسے بندریا کہنا شروع کردیا تھا۔ لوگ اُس کے چہرے اور جسمانی معذوری کی بنیاد پر تمسخر اڑایا کرتے تھے مگر وہ کسی کی کسی بات کا بُرا مانے بغیر اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔ محنت جاری رکھی اور اب وہ محنت رنگ لے آئی ہے۔

دیپتی جیوانجی نے بتایا کہ گھر والوں نے اُس کا بھرپور ساتھ دیا۔ علاقے میں بھی چند ایک لوگ تھے جو اُس کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ تمسخر اُڑانے اور طنز کرنے والے زیادہ تھے مگر اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ پیار کرنے والے بھی ساتھ ساتھ تھے اور یوں بھرپور لگن کا یہ سفر کامیابی کی منزل پر ختم ہوا۔

دیپتی جیوانجی کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ تیلگو بولنے والوں کی دو ریاستوں (ٓآندھرا پردیش اور تلنگانا) کے لیے ایوارڈ جیت کر لائی ہوں۔ دیپتی نے قومی سطح کے مقابلے بھی جیتے ہیں اور اُنہیں انعامات کی شکل میں خطیر رقوم ملی ہیں۔ اِن رقوم سے اُنہوں نے اپنے والدین کے لیے زرعی زمین خریدی ہے تاکہ وہ اچھی طرح گزر بسر کرسکیں۔ وہ اس بات پر بہت خوش ہیں کہ جو لوگ اُن کا تمسخر اڑاتے تھے وہ اُنہی کے لیے باعثِ توقیر ثابت ہوئی ہیں۔