سعودی حکومت نے بیمار افراد کے حج کرنے پر پابندی عائد کردی اور کہا ہے کہ صرف تندرست اور توانا افراد ہی حج پر آسکیں گے۔ اطلاعات کے مطابق سعودی وزارت حج و عمرہ کی جانب سے پاکستان کی وزارت مذہبی امور کو حج 2025 سے متعلق حج ایڈوائزری موصول ہوگئی جس میں پاکستان کو آگاہ کیا گیا ہے کہ پیچیدہ امراض میں مبتلا حضرات سفر حج پر روانہ نہیں ہو سکیں گے۔ ترجمان مذہبی امور کے مطابق سعودی حکومت نے مراسلے میں کہا ہے کہ موسم کی شدت کے پیش نظر تندرست و توانا عازمین کو سفر حج کی اجازت دی جائے گی۔ گردہ، دل، پھیپھڑے، جگر اور کینسر کے پیچیدہ مریضوں کو سفر حج کی اجازت نہیں ہوگی۔ ترجمان نے کہا ہے کہ ڈیمشیا اور متعدی امراض مثلاً ٹی بی، تپ دق اور کالی کھانسی کے حامل افراد کو سفر حج کی اجازت نہیں ہوگی، 12سال سے کم عمر بچوں اور حاملہ خواتین کو سفر حج کی اجازت نہیں ہوگی۔ ترجمان کے مطابق عازمین حج کے لیے گردن توڑ بخار، کورونا، موسمی انفلوئنزا، پولیو ویکسین لگوانا لازم ہوگا۔
حج کے حوالے سے سعودی حکومت کا یہ فیصلہ میری نظر میں بالکل ٹھیک اور وقت کی اہم ضرورت ہے، چونکہ میرا بھی اس حوالے سے ایک تلخ تجربہ رہا ہے جب اللہ نے مجھے اپنی بوڑھی اور بیمار والدہ کے ساتھ حج کی سعادت عطا فرمائی اور دوسری سعادت گروپ لیڈر کی حیثیت سے ملی کہ جب اپنے دیگر حاجی ساتھیوں کی خدمت کا موقع ملا، یہ تجربہ تو ہم بعد میں آپ کے ساتھ شیئر کریں گے پہلے ہمارے پاکستانی معاشرے میں حج جیسی عبادت کے حوالے جو تصورات پائے جاتے تھے اور اب بھی کچھ پائے جاتے ہیں اس پر تھوڑی سی گفتگو ہوجائے تو بعد کے نکات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ حج کے حوالے سے بچپن ہی سے ایک نکتہ ہمارے ذہن میں راسخ ہوگیا تھا کہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جو بڑھاپے میں یعنی عمر کے آخری حصے میں ادا کی جاتی ہے۔ اس لیے کہ ہمارے رشتہ داروں، محلے والوں اور دیگر جاننے والوں میں جو بھی مرد و خواتین حج پر جاتے وہ سب بوڑھے اور عمر رسیدہ لوگ ہوتے اور ان میں سے بیش تر وہ ہوتے جو کچھ نہ کچھ کم یا زیادہ بیمار ہوتے۔ جب کچھ شعور کی منزلیں طے ہوئیں اور معلوم ہوا کہ اسلام کے پانچ ارکان ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور جہاد۔ اس میں جہاد والی عبادت تو اس وقت ادا ہوتی ہے جب حق وباطل کا معرکہ برپا ہو پھر اس میں اور بھی تفصیل ہے کہ جہاد اصغر کیا ہے اور جہاد اکبر کیا ہے اب یہ الگ موضوع ہے ہم بقیہ چار ارکان پر بات کرتے ہیں کہ یہ فرائض کب ہمارے اوپر عائد ہوتے ہیں۔
پہلا رکن یا فرض نماز ہے جو ہوش سنبھالتے ہی فرض ہوجاتی ہے اور ساری عمر اس کی ادائیگی ہر صورت اور کیفیت میں کرنا پڑتا ہے کہ حتیٰ کہ اگر کوئی بیمار بھی ہے اور وہ بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو لیٹ کر پڑھ لے۔ آخرت میں پہلا سوال اسی فرض کی ادائیگی کے حوالے سے ہوگا اس میں والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ بچپن سے اپنے بچوں میں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں، دوسرا رکن یا فرض روزہ ہے جو بالغ ہونے پر ہر ایک پر فرض ہوجاتا ہے اور رمضان کے مہینے کے روزے فرض ہیں، بقیہ نوافل نماز اور روزے تو الگ ہیں جن کی ادائیگی پر اجر و ثواب ملتا ہے لیکن ان نوافل کی عدم ادائیگی پر کوئی گناہ نہیں ہوتا، تیسرا رکن زکوٰۃ جو صاحب نصاب پر فرض ہے چوتھا رکن حج ہے یہ فرض دیگر فرائض سے بالکل الگ ہے نماز پوری زندگی ادا کرنا ہے روزہ بھی پوری زندگی کے لیے ہے اور زکوٰۃ بھی پوری زندگی یعنی جب تک آپ صاحب نصاب ہیں ادا کرنا ہے لیکن حج وہ عبادت ہے جو زندگی میں ایک دفعہ ہی ادا کرنی ہوتی ہے، آپ چاہے کتنے ہی دولت مند ہوں زکوٰۃ تو ادا کریں گے لیکن حج ایک بار ہوگیا تو اب ضروری نہیں ہے کہ پھر حج کریں۔ ان ارکان دین کا ایک اور پہلو سے جائزہ لیتے ہیں کہ نماز جیسی عبادت میں کوئی مشقت نہیں سوائے صبح فجر کے لیے اٹھنے کے۔ اس کی ادائیگی میں جسم کو کچھ حرکت دینا پڑتا ہے، روزے میں سوائے دن بھر بھوکے اور پیاسے رہنے کے کوئی مشقت نہیں ہے اور زکوٰۃ میں تو کسی قسم کی کوئی مشقت ہی نہیں ہے لیکن حج ایک ایسی عبادت ہے جو پوری کی پوری مشقت سے لبریز ہے۔
اب جب یہ طے ہوگیا کہ حج مشقت والی عبادت ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اس عبادت کو اسی وقت ادا کرتے جب ہم بوڑھے، کچھ بیمار اور لاغر ہوجاتے ہیں اور بعض حالات میں تو معمولات زندگی بھی بوجھ بن جاتے ہیں۔ ہمارے برصغیر (پاکستان، ہندوستان اور بنگلا دیش) میںحج کے حوالے سے کچھ منفرد تصورات پائے جاتے ہیں جن کا دین کے تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں ہے یعنی یہی بات کہ یار ابھی تو پوری عمر پڑی ہے (جیسے کہ ان کو پتا ہے کہ وہ بہت عرصے تک جئیں گے) جب وقت آئے گا حج کرلیں گے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ابھی بال بچوں کے اخراجات اور تعلیم کا مسئلہ ان کے لیے کوئی چھت کا انتظام کردیں پھر دیکھیں گے۔ اور عبادات کے بارے میں ہم یہ نہیں کہتے کہ یار بچوں کو پال پوس لیں پھر نماز پڑھیں گے یا گھر والوں کے لیے کوئی رہنے کا اپنا مستقل انتظام اللہ کرادے پھر روزے رکھنا شروع کر دیں گے۔ ایک اور ہمارے معاشرے میں یہ بات زیر بحث آتی ہے کہ یار لڑکیاں جوان ہیں ان کو پہلے اپنے گھروں کی کردیں پھر حج پر جائیں گے یہ سب کمزور عذرات ہیں آپ کے پاس مالی گنجائش ہے اور حج پر جاسکتے ہیں تو فوراً جائیں اس لیے کہ آج جو اشیاء کی قیمتیں اور حج کی فیس ہے وہ آنے والے کل میں نہیں ہوگی اور آج جو صحت ہے وہ شاید کل نہ ہو۔ ایک خاص سچویشن میں تو یہ فیصلہ ہوسکتا ہے کہ حج اگلے سال کرلیں گے وہ یہ کہ بیٹی کی شادی کی تاریخ طے ہوچکی اب آپ کے پاس اتنی رقم ہے کہ حج پر جاتے ہیں تو شادی نہیں ہوسکے گی اس لیے پہلے بیٹی کی شادی کردی جائے لیکن ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ بچیاں ابھی پڑھ رہی ہیں ان کے رشتے بھی آنا باقی ہیں اور ہم یہی کہہ رہے کہ پہلے بچیوں کے فرض سے فارغ ہو لیں پھر حج پر جائیں گے۔
راقم نے 1994 میں اپنی والدہ کے ساتھ حج کیا تھا اس وقت عمر 42 سال تھی اور صحت بھی ٹھیک تھی اور اس وقت حج کی سرکاری فیس 49763 روپے تھی جو آج دس لاکھ سے زائد ہوگئی آئندہ کیا ہو کچھ پتا نہیں۔ بوڑھے اور بیمار حاجیوں کے ساتھ ان کا بیٹا بھانجا یا کوئی اور ہو جو ان کی دیکھ بھال کرلے تو بات ٹھیک ہے جن بزرگوں کے ساتھ کوئی نہ ہو تو پھر وہ دیگر ساتھیوں کے لیے اور بالخصوص گروپ لیڈر کے لیے آزمائش بن جاتے ہیں۔ حج کے تین فرائض ہوتے ہیں اہرام، وقوف عرفات اور طواف جو متعین وقت یعنی بارہ کی شام تک کرنا لازمی ہے اگر اس میں کوئی ایک فرض بھی رہ گیا حج نہیں ہوگا۔ ہم نے سوچا اہرام اور وقوف عرفات تو والدہ کے ساتھ ہو جائیں گے لیکن طواف جو تیسرا اہم رکن ہے اس میں مشکل ہو جائے گی۔ اس زمانے میں مکہ میں مدرسہ صولتیہ تھا ہم نے وہاں علماء سے رابطہ کیا اور کہا والدہ ہماری بیمار ہیں ہم چاہتے ہیں مزدلفہ میں رات گزارنے کے بعد صبح منا جانے کے بجائے مکہ آجائیں اس وقت مطاف کچھ تھوڑی دیر کے لیے خالی یعنی رش کم ہوتا ہے ہم والدہ کے ساتھ طواف کرلیں پھر واپس منا جا کر بقیہ واجبات کی ادائیگی کرلیں انہوں نے اجازت دے دی اور کہا کہ آپ کو یہ طواف احرام کی حالت میں ہی کرنا ہوگا، ہم نے کہا جی ٹھیک ہے۔
اب ہم وہ واقعہ سناتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں سعودی فیصلے کی افادیت محسوس ہوتی ہے عرفات میں ظہر اور عصر ایک ساتھ پڑھنے کے بعد مغرب کے وقت مغرب کی نماز پڑھے بغیر مزدلفہ آنا ہوتا ہے جہاں مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھنی ہوتی ہے پھر رات گزار کر صبح واپس منا جاتے ہیں۔ وہاں جا کر چار کام کرنے ہوتے ہیں ایک لفظ رنحط میں چاروں کام آگئے رسے رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا) ن سے نحر (قربانی) ح سے حلق (سر کے بال اتروانا) پھر ط سے طواف جو حج کا فرض ہے۔ تربیتی پروگرام میں ایک بات اور سمجھائی گئی تھی کہ عرفات سے واپسی پر عام طور پر ڈرائیورز جو سعودیہ سے باہر کے ہوتے ہیں راستہ بھول جاتے ہیں مزدلفہ پہنچ کر کسی صورت بس نہ چھوڑیں بلکہ بس کے ساتھ ہی اپنا بستر وغیرہ بچھا لیں ورنہ یہ وہاںسے غائب ہوگئے تو آپ کا صبح منا جانا مشکل ہو جائے گا۔ ہم جب عرفات سے مزدلفہ آرہے تھے تو راستے میں دو تین جگہ بس خراب ہوئی یا ڈرائیور نے جان بوجھ کر ایسا کیا بہرحال ایک جگہ جہاں کچھ اور گروپس بھی بیٹھے ہوئے تھے ڈرائیور نے مزدلفہ کہہ کر ہمیں اتارا اور بہت پکا وعدہ کیا کہ میں صبح اسی جگہ سے آپ لوگوں کو منا پہنچا دوں گا ہم نے دل میں سوچا ہمارے ساتھ بھی ہاتھ ہوگیا ہمارے کچھ ساتھیوں کو شک ہوا کہ یہ مزدلفہ کی حدود نہیں ہے انہوں نے قریب ہی ایک سرکاری عمارت کے چوکیدار سے معلوم کیا اس نے کہا کہ مزدلفہ یہاں سے تین فرلانگ آگے ہے۔ ہمارے ساتھ دو مشکل ہو گئیں جو حاجی اور ان کی اہلیہ کراچی سے ہی بیمار گئے تھے مزدلفہ میں شدید بیمار ہوگئے وہ دونوں رونے لگے ایک اور بوڑھے حاجی تھے جو ویسے تو ٹھیک رہے انہیں موشن لگ گئے اب یہ تین حاجی ایک قدم چلنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور ہمیں بقیہ ساتھیوں کو لے کر مزدلفہ کی حدود میں جانا تھا۔ ایک صحت مند حاجی اور ان کی اہلیہ سے درخواست کی کہ اللہ تو ہماری مجبوریاں دیکھ ہی رہا ہے آپ ان بیمار ساتھیوں کے پاس رک جائیں صبح ہم گاڑی لے کر آئیں گے ان کو مکہ ان کی رہائش گاہ لے جائیں گے آپ دونوں منا چلے جائیے گا وہ راضی ہوگئے ہم بقیہ قافلے کو لے کر مزدلفہ چلے گئے پھر صبح ایک گاڑی مکہ کے لیے ہائر کرکے بیمارحاجیوں کو ان کی رہائش گاہ پہنچایا ان سے کہا کہ آپ دونوں کی طرف سے رمی ہم اور ہمارے ایک دوست کرلیں گے بس آج کل میں جب بھی آپ کی طبیعت کچھ بہتر ہو آپ وھیل چیئر پر طواف کر لیجیے گا تاکہ آپ کا حج مکمل ہوجائے ان کو چھوڑ کر ہم والدہ کے ساتھ مکہ آگئے عید کی نماز اس وقت ختم ہوئی تھی، خانہ کعبہ کے قریب کم گھیرے میں طواف ہوگیا بس ساتویں چکر میں پورا مطاف بھر چکا تھا احرام کے ساتھ بڑی مشکل سے باہر نکلے پھر والدہ کے ساتھ سعی کرکے واپس منا پہنچ گئے۔