(3)
گزشتہ کالم میں کچھ حقائق گڈمڈ ہوگئے ہیں جن کی ہم ابتدا ہی میں صراحت کیے دیتے ہیں۔ قرار داد مقاصد کی تیاری میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ مولانا مودودی کو جیل (غالباً ملتان جیل) میں اس کا مسودہ بھیجا گیا تھا اور انہوں نے اس پر نظرثانی کی تھی۔ بعدازاں یہ قرارداد وزیراعظم لیاقت علی خان کو دستور ساز اسمبلی میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ اس قرارداد نے واضح کردیا تھا کہ پاکستان میں اسلام کی حکمرانی ہوگی اور پاکستان کا آئین اسلام کے آفاقی اصولوں کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے گا۔ یہ بات طے ہونے کے باوجود سیکولر اور نام نہاد لبرل طبقوں کی زبانیں بند نہ ہوئیں وہ بار بار یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ مسلمان تو فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں آخر کس فرقے کا اسلام پاکستان میں نافذ کیا جائے گا۔ اس اعتراض کے جواب دینے کے لیے جماعت اسلامی کی تحریک پر مختلف مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کا سہ روزہ اجلاس جنوری 1951ء میں سیّد سلیمان ندوی کی زیر صدارت کراچی میں ہوا جس میں مولانا مودودی کے علاوہ مغربی اور مشرقی پاکستان سے تیس سنی و شیعہ علما نے شرکت کی۔ اس اجلاس نے بحث و تمحیص کے بعد بائیس نکات پر مبنی ایک اعلامیہ ترتیب دیا جس میں اسلامی آئین کی تشکیل کے لیے تمام ضروری امور کی وضاحت کی گئی تھی۔ یہ اعلامیہ بھی دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا گیا تا کہ دستور سازی میں اس سے رہنمائی حاصل کی جاسکے۔
پاکستان بنے کئی سال ہوگئے تھے لیکن یہاں اسلامی آئین بنانے کی ہر کوشش کو درپردہ سبوتاژ کیا جارہا تھا اور پاکستان بدستور سرزمین بے آئین بنا ہوا تھا جبکہ جماعت اسلامی پوری شدت کے ساتھ اسلامی دستور سازی اور نفاذ اسلام کی مہم چلا رہی تھی۔ مولانا مودودی اس مہم کی قیادت کررہے تھے ان کے خلاف الزامات کی یورش تو تھی لیکن ایسا کوئی ٹھوس الزام نہ تھا جس کی بنیاد پر انہیں مستقلاً حوالہ زنداں رکھا جاتا۔ چنانچہ اندیشہ نقص امن کے قانون (سیفٹی ایکٹ) کے تحت زیادہ سے زیادہ چھے ماہ تک نظر بند رکھا جاسکتا تھا۔ وہ رہا ہو کر پھر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے بلکہ میں نفاذ اسلام کی مہم بھی جاری تھی اور اسلامی اصولوں کے مطابق آئین کی تشکیل کے لیے بھی حکومت پر دبائو ڈالا جارہا تھا کہ 1953ء کے اوائل میں اچانک اینٹی قادیانی تحریک شروع ہوگئی۔ اس میں شبہ نہیں کہ قادیانی فوج اور سول انتظامیہ میں اہم عہدوں پر فائز تھے اور اپنے اثر رسوخ سے قادیانیت کو فروغ دے رہے تھے جس سے پنجاب کے عوام میں بے چینی پائی جاتی تھی لیکن قادیانی مخالف پرتشدد تحریک کا مطلب امن وامان کو درہم برہم کرنا اور نفاذ اسلام کی پرامن تحریک کو سبوتاژ کرنا تھا۔ چنانچہ مولانا مودودی نے مجلس احرار کی دعوت پر اس تحریک کا حصہ بننے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس تحریک سے قادیانیوں کو نقصان پہنچنے کے بجائے الٹا فائدہ پہنچے گا وہ پہلے سے زیادہ منظم اور فعال ہوجائیں گے۔ قادیانیت کا علمی محاکمہ ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو قادیانیت کی حقیقت معلوم ہو اور وہ اس کے فریب میں آنے سے بچیں۔ چنانچہ آپ نے خود یہ ذمے داری قبول کی اور ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھ کر قادیانیت کی جڑ کاٹ دی۔ یہ کتابچہ اردو، انگریزی اور بنگلا میں بڑی تعداد میں شائع ہوا اور اینٹی قادیانی تحریک سے زیادہ موثر ثابت ہوا۔ اس تحریک نے بہرکیف پنجاب میں امن وامان کا مسئلہ پیدا کردیا جس سے حکومت پولیس کے ذریعے بخوبی نمٹ سکتی تھی لیکن لاہور کو فوج کے حوالے کرکے اس شہر میں مارشل لا لگا دیا گیا اور ملزموں کو سزا دینے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کردی گئیں۔ پھر اچانک جماعت اسلامی کے دفاتر پر چھاپا مار کر سارا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا اور مولانا مودودی سمیت جماعت اسلامی کے تمام سرکردہ افراد گرفتار کرلیے گئے۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ یہی لوگ اینٹی قادیانی تحریک کی پشت پناہی کررہے تھے۔ حالانکہ جماعت اسلامی کے ان قائدین کا اس تحریک سے کوئی لینا دینا نہ تھا اور انہوں نے کھلم کھلا اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا لیکن حکومت مصر تھی کہ اصل مجرم یہی لوگ ہیں۔ جن لوگوں نے یہ تحریک شروع کی تھی وہ منظر سے بالکل غائب ہوگئے تھے اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ یہ سارا جال جماعت اسلامی کے قائدین پر ہاتھ ڈالنے کے لیے پھیلا گیا ہے۔ پھر جب ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھنے کے جرم میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو فوجی عدالت سے سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا تو ساری بات کھل کر سامنے آگئی۔ لاہور میں مارشل لا اسی لیے لگایا گیا تھا کہ اس کے تحت فوجی عدالت قائم کرکے اس کے ذریعے مولانا مودودی کو سزائے موت دی جاسکے کیونکہ سول عدالت کے ذریعے یہ کام ممکن نہ تھا۔ چنانچہ 11 مئی 1953ء کو سینٹرل جیل لاہور سے اس وارڈ میں جہاں مولانا مودودی اور ان کے رفقا نظر بند تھے چند فوجی افسر جیل کے عملے کے ہمراہ داخل ہوئے اور ایک فوجی افسر نے مولانا مودودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’آپ کو ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھنے کے جرم میں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔ مارشل لا کی سزائوں کے خلاف اپیل کا کوئی حق نہیں ہے۔ البتہ آپ چاہیں تو سات دن کے اندر اندر کمانڈر انچیف سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں‘‘۔ مولانا مودودی نے نہایت پرسکون انداز میں فرمایا ’’مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی‘‘ پھر ایک وقفے کے بعد انہوں نے فوجی ٹیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی، اگر وہاں فیصلہ نہیں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔ مولانا نے بعدازاں ایک پیغام کے ذریعے اہل خانہ اور احباب کو بھی سختی سے تاکید کردی کہ وہ ان کے لیے کسی قسم کی اپیل نہ کریں۔
فوجی ٹیم اور جیل کے عملے کے جانے کے بعد مولانا مودودی کو سزائے موت پانے والے قیدی کا لباس پہنا کر ڈیتھ سیل میں منتقل کردیا گیا جہاں انہوں نے عشا کی نماز پڑھی اور ٹاٹ کے بستر پر لیٹ کر خراٹے لینے لگے۔ پہرہ دینے والوں کا کہنا تھا کہ ہم نے سزائے موت کے کسی قیدی کو اتنا پرسکون اور مطمئن نہیں دیکھا۔ اگلے دن سزائے موت کی خبر نشر اور شائع ہوتے ہی پاکستان اور پورے عالم اسلام میں ہیجان برپا ہوگیا اور تمام مسلمان ملکوں کے عمائدین اور مذہبی جماعتوں کے قائدین برقی پیغامات کے ذریعے پاکستانی حکمرانوں سے سزائے موت ختم کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ پاکستان میں بھی اس سزا پر شدید احتجاج ہوا۔ پاکستانی اور عربی اخبارات نے اس پر اداریے لکھے اور اسلام کے لیے مولانا مودودی کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ عالمی سطح پر یہ دبائو اتنا شدید تھا کہ حکمران ٹولہ اسے دو دن بھی نہ برداشت کرسکا۔ 11 مئی 1953ء کو سزائے موت سنائی گئی تھی اور 13 مئی کو اسے سزائے عمر قید میں بدل دیا گیا۔ تاہم احتجاج پھر بھی جاری رہا۔ فیصلے میں تبدیلی کے بعد لاہور سے مارشل لا اٹھالیا گیا اور اینٹی قادیانی تحریک جو خاص مقصد کے لیے شروع کی گئی تھی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ یہ سارا منظر نامہ گواہی دے رہا تھا کہ محض ایک شخص کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے یہ ڈراما رچایا گیا تھا اس کے مخالفین جن میں سیکولرسٹ، کمیونسٹ، کالے انگریز اور بے ضمیر سیاستدان بھی شامل تھے مولانا مودودی کو راستے سے ہٹانے کے لیے عام عدالتوں سے مدد نہیں لے سکتے تھے اس لیے ایک شہر میں مارشل لا لگایا گیا اور مارشل لا کے تحت فوجی عدالت قائم کرکے مولانا مودودی کا کام تمام کرنے کا مقدمہ اس کے سپرد کردیا گیا اور اس نام نہاد عدالت نے سکھا شاہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سزائے موت کا فیصلہ سنادیا لیکن ’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘ حکمران ٹولے کو دو دن بعد ہی اپنا تھوکا چاٹنا پڑا۔
(جاری ہے)