مقبوضہ کشمیر میں تین دہائیوں کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ مئی 2024ء میں بھارت کے لوک سبھا (قومی اسمبلی) کے الیکشن ہوئے، یہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ہوئے، اس الیکشن میں کئی دہائیوں کے بعد ایسا ہوا کہ کسی سیاسی جماعت نے بائیکاٹ کی اپیل نہیں کی۔ اور مقبوضہ کشمیر میں ووٹنگ کی بلند سطح دیکھی گئی۔ پلواما کے ایک شہری کا کہنا ہے کہ ’’آج کے ووٹ اور اس سے پہلے ڈالے گئے ووٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے‘‘۔ آج کا ووٹ آرٹیکل 370 اور 35-A کی غیر قانونی اور غیر آئینی منسوخ کا ردعمل ہے اس لیے نہ کسی استصواب کے حامی آزادی پسند جماعتوں نے کوئی بائیکاٹ کیا اور نہ ہی کوئی ووٹر کسی بے یقینی اور کشمکش کا شکار ہوا۔
5 اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو نیم خود مختاری دلانے والی آئین کی دفعات 370 اور ایک ذیلی دفعہ 35-A کو تبدیل کر دیا تھا۔ اس آئینی تبدیلی کے ساتھ ہی کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقوں میں بدل دیا تھا۔ اس ترمیم کے بعد مقبوضہ کشمیر میں سیاسی سرگرمیوں اور آزادی اظہار رائے پر پابندی لگائی گئیں۔ ہزاروں سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں بھر دیا گیا۔ اب سیاسی جماعتیں آرٹیکل 370 کی بحالی کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کی فنڈنگ کے الزام میں قید انجینئر رشید نے جیل میں بیٹھے بیٹھے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو پونے دو لاکھ ووٹوں کے فرق سے شکست دے دی۔
انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کئی دفعہ یہ دعویٰ کرچکے ہیںکہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے حل ہوچکا ہے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں کشمیر میں تشدد حکومتی سطح پر بڑھا ہے یوں یہاں کی سیاست تبدیل نہیں ہوئی۔ البتہ حکومتی سطح پر تقسیم ضرور ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی سیاسی جماعتیں اور بی جے پی کا موقف متضاد ہے۔ نیشنل کانفرنس اور راہول گاندھی کی انڈین نیشنل کانگریس کے انتخابی اتحاد پر پاکستان نوازی کا الزام لگا رہے ہیں کہ ان کے منشور میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کروانے کے وعدے موجود ہیں۔ بی جے پی کا الزام ہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس سابق دہشت گردوں (آزادی پسندوں) کے لیے کھلے عام مہم چلا رہے ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ کشمیر کے انتخابات میں کوئی کشمیری جماعت پاکستان کا نام نہیں لے رہی، البتہ بی جے پی قیادت خود ہی ان جماعتوں کو پاکستان نواز کہتی رہتی ہے۔ جو انڈیا کے آئین کے تحت انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
تین ماہ قبل ہونے والے لوک سبھا (قومی اسمبلی) کے انتخابات میں بی جے پی کو کشمیر میں چھے میں سے دو نشستوں پر کامیابی ملی ہے، کشمیر کی سیاست میں مودی کی جماعت کے لیے یہ بڑا سیاسی دھچکا ہے۔ اس سے بڑا اپ سیٹ کشمیر کے دو سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی شکست ہے۔ بی جے پی اپنی شکست پر اگر افسردہ ہے تو اپنے ان سیاسی حریفوں کی ہار کو اپنے لیے ایک اچھا شگون کہہ رہی ہے۔ اصل میں محبوبہ مفتی کی جماعت کے بی جے پی کے ساتھ پچھلے گٹھ جوڑ کو لوگوں نے یاد رکھا کیوں کہ کشمیر کے عوام بی جے پی سے ہاتھ ملانا ایک گناہ سمجھتے ہیں، خاص طور سے آئین ہند کی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد۔ اب مقبوضہ جموں و کشمیر کی صوبائی اسمبلی کی نوے نشستوں کے لیے انتخابات ہوں گے پہلے مرحلے میں 18 ستمبر دوسرے مرحلے میں 25 ستمبر اور تیسرے مرحلے میں 1 اکتوبر کو ہوگا اور نتائج کا اعلان 8 اکتوبر کو ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان سے مذاکرات کی بات سیاسی جماعتیں ایسے وقت میں کررہی ہیں جبکہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے امکانات کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی آئینی ترمیم کے بعد کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہونے کی بات کی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پاکستان سے مذاکرات کے لیے سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں کیوں زور ڈال رہی ہیں۔