کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، آج کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے۔ حالیہ بارشوں نے شہر کا 80 فیصد سے زائد انفرااسٹرکچر تباہ کردیا ہے۔ گلی محلوں سے لے کر بڑے صنعتی علاقوں تک سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور جگہ جگہ گڑھے پڑ چکے ہیں۔ اس صورتِ حال نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے، اب پورے شہر میں آمدورفت مشکل ترین اور اذیت ناک بن چکی ہے۔
رامسوامی، رنچھوڑلائن، لائنز ایریا، پی آئی بی کالونی، ناتھا خان گوٹھ اور شاہ فیصل کالونی سمیت کئی علاقوں میں سڑکیں مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔ سیوریج کے پانی نے ان سڑکوں کی تباہی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ لیاری، کیماڑی، بلدیہ ٹاؤن اور اورنگی ٹاؤن شاہراہوں کا انفرااسٹرکچر بھی مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ یہی حال گلشن اقبال،ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد کا ہے، جہاں بڑی شاہرائوں سے گزرنا ایک کٹھن کام بن چکا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی علاقے سائٹ ایریا کی تمام بڑی سڑکیں بھی بارشوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔ یہاں کے تاجر رہنما جاوید بلوانی نے حکومت کی عدم توجہ پر شدید تنقید کی ہے۔ کورنگی، لانڈھی اور نارتھ کراچی کے صنعتی علاقوں کی مرکزی شاہراہوں کا حال بھی بدتر ہے۔ ان علاقوں میں کھربوں روپے کا ٹیکس دینے والے صنعت کاروں کو مکمل طور پر لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔
کورنگی انڈسٹریل ایریا کی مرکزی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اور اسٹریٹ لائٹس کی عدم موجودگی کے باعث حادثات معمول بن چکے ہیں۔ نارتھ کراچی انڈسٹریل ایریا کی سڑکیں بھی تباہی کی داستان سناتی ہیں، جہاں کے تاجر رہنما کا کہنا ہے کہ متعلقہ اداروں کے علم میں لانے کے باوجود کوئی عملی اقدام نہیں کیا جارہا۔
اس پس منظر میں سڑکوں کی خستہ حالی، پانی کے بحران اور صفائی ستھرائی کے ناقص نظام پرامیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے پیپلز پارٹی پر کراچی دشمنی کا الزام لگایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ٹاؤن و یوسی چیئرمینوں کو اختیارات دیے جائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے خمیر میں کراچی دشمنی ہے، وہ کراچی کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہتی، ان میں بلدیہ کا انتظام چلانے کی صلاحیت نہیں، پیپلز پارٹی کے قبضہ میئر کو ٹاؤن و یوسی چیئرمینوں کو اختیارات ہر صورت میں دینا پڑیں گے، پیپلز پارٹی کی جمہوریت وصیت اور وراثت پر چل رہی ہے، پیپلز پارٹی براہِ راست 16 سال سے سندھ پر قابض ہے، اس کے باوجود کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، 16 سال میں کراچی کے لیے ایک بوند پانی میں اضافہ نہیں ہوا، انہوں نے کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے اربوں روپے کے قرض لیے لیکن یہ رقم کرپشن کی نذر ہوگئی اور کراچی کو کچھ نہیں ملا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر کراچی کے وسائل پر ڈاکا ڈالا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن کی ہدایت کے مطابق اختیارات سے بڑھ کر کام کریں گے، مزاحمتی تحریک بھی چلائیں گے۔ سندھ حکومت و قبضہ میئر کی نااہلی کو بے نقاب کریں گے۔
کراچی رو رہا ہے، اس کے شہری آج شدید مشکلات کا شکار ہیں، اور حکومت کی طرف سے کوئی سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آتے۔ اگر فوری طور پر عملی اقدامات نہ کیے گئے تو کراچی کی یہ تباہی ملک کی معیشت پر پہلے سے زیادہ منفی اثرات ڈال سکتی ہے۔
کراچی میں کچرے کی نکاسی کا نظام بھی مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں، جو نہ صرف شہر کی خوبصورتی کو بگاڑ رہے ہیں بلکہ عوامی صحت کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے کچرے کی بروقت نکاسی کا کوئی مؤثر انتظام نہیں ہے، جس کے باعث شہر کے مختلف علاقوں میں بدبو اور گندگی پھیل رہی ہے۔
کراچی کے شہری بجلی اور پانی کی کمی کا برسوں سے سامنا کررہے ہیں۔ طویل لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت نے شہریوں کی زندگی کو مزید مشکل بنادیا ہے۔ بجلی کی بندش اور پانی کی عدم دستیابی نے عوام کی مشکلات میں اضافہ پہلے ہی کیا ہوا ہے۔ حکومتی ادارے اس بحران کے حل میں ناکام دکھائی دیتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔
کراچی کی موجودہ صورتِ حال میں سب سے بڑا مسئلہ حکومتی بے حسی ہے۔ سندھ حکومت اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آتے۔ ہر سال کی طرح اِس سال بھی بارشوں نے کراچی کے انفرااسٹرکچر کو بری طرح متاثر کیا ہے، لیکن متعلقہ ادارے ہر بار کی طرح اِس بار بھی ناکام رہے ہیں۔ نہ سڑکوں کی مرمت کا کوئی منصوبہ نظر آرہا ہے اور نہ ہی سیوریج کے نظام کو بہتر بنانے کی کوئی کوشش کی جارہی ہے۔
کراچی کا کیا ہوگا؟ اس کا مستقبل کیا ہے؟ یہ بڑے سوالات ہیں جو اس کے ساتھ برسوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ کراچی کا دوبارہ روشنیوں کا شہر بننا اب خواب بن کر رہ گیا ہے جس کے شرمندۂ تعبیر ہونے کی امید موجودہ جعلی بندوبست میں مشکل ہی نظر آتی ہے، کیونکہ شہر پر اس وقت عوامی مینڈیٹ کو سبوتاژ کرکے اپنے پسندیدہ لوگوں کو مسلط کیا گیا ہے۔ یہ ظلم برسوں سے جاری ہے۔ کراچی کے لوگ جبر اور غنڈہ گردی کے ماحول میں جیسے تیسے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔