جب دل کلمے اور شوق شہادت سے لبریز تھے

202

1965ء میں جب پاک بھارت جنگ ہوئی تو ہم شعور کی عمر میں قدم رکھ چکے تھے۔ مجھے آج تک صدر ایوب کی تقریر کا وہ جملہ یاد ہے جس میں کہا گیا تھا کہ: ’’بھارت نے اُس قوم کو للکارا ہے جن کے دل کلمہ طیبہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں‘‘۔ یہ واحدنیت ربی سے جوڑ کا جہاں اظہار جملہ تھا وہاں اُس نظریے کا بھی اعادہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ۔ یعنی پاکستان اور کلمے کا جسم اور روح کا معاملہ ہے۔ ان دنوں فوج جن کے دل کلمے سے لبریز اور شوق شہادت سے آراستہ تھے۔ جب اُن

کے قافلہ گزرتے تھے تو عوام اُن کے لیے پلکیں بچھاتے اور پھول نچھاور کرتے تھے اور ربّ کے حضور دعا گو ہوتے۔ ان دنوں کا جذبۂ جہاد اب غزہ میں نظر آتا ہے۔ 65ء کی جنگ میں پاکستان کے دشمن کے عزائم کو ناکام بنادیا، لاہور میں چائے پینے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ دعائے قنوت معمول نماز قرار پائی، یہ الگ بات ہے کہ جیتی بازی مذاکرات کی میز پر ہار گئے اور بھارتی وزیراعظم شاستری خوشی کے مارے جان کی بازی ہار بیٹھا۔ پھر اُس کے بعد نظریہ پاکستان کو نظر لگ گئی، دل کلمہ طیبہ کے ساتھ دھڑکنے کے بجائے لسانیت اور روٹی، کپڑا اور مکان کے لیے مچلنے لگے اور جمہوریت کے نام پر کالانعام کے سپرد مہار اقتدار کردی گئی تو بھارت جو تاک میں تھا پھر 1970ء کے انتخابات کا فائدہ سمیٹنے اور اقتدار کی خاطر مرے جانے والے سیاست دانوں کی رال ٹپکتے دیکھ کر میدان جنگ کا تندور گرم کر بیٹھا تو ہمارے ملک میں شراب سے مخمور صدر یحییٰ خان کے اور ملک کے دفاع کے ذمے داروں کے دل محفل سرور کی تھاپ پر دھڑک رہے تھے اور وہ ربّ کی نصرت کے طلب گار بننے کے بجائے امریکا کے ساتویں بیڑے کے منتظر ہوگئے اور یوں اُس بیڑے کی آس نے پاکستان کا بیڑہ غرق کردیا اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے دو ٹکڑے ہوگئے۔

البدر الشمس کے مجاہدین کے اس سانحے کو حتمی المقدور روکنے کے لیے جان کی بازی لگائی مگر وہ عبداللہ نیازی جو کہا کرتا تھا کہ دشمن کے ٹینک میرے سینے پر گزر کر ڈھاکا میں داخل ہوں گے فحش لطیفے سناتا سقوط مشرقی پاکستان کے معاہدے پر ذلت آمیز طریقے سے ہتھیار ڈال بیٹھا، پھر مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا۔ ربّ سے ناتا توڑ کر امریکا سے ناتا جوڑنے کا نتیجہ یہی نکلنا تھا سو نکلا۔ محب ِ وطن جماعت اسلامی کے اکابر و کارکنان کے دھرتی تنگ کردی گئی۔ مکتی باہنی لہو کی پیاسی ہوگئی۔ اکابرین جماعت اسلامی نے ڈائن حسینہ کے دور حکمرانی میں پھانسی کے پھندے چومے اور

استقامت کی زندہ جاوید مثال قائم کرکے ربّ کے حضور پیش ہوگئے۔ ان کے دل کلمہ ٔ طیبہ کے ساتھ تروتازہ دھڑکتے رہے۔ اب بنگلا دیش میں تاریخ نے اِک نیا موڑ کاٹا ہے۔ ڈائن حسینہ واجد بھاگ کر اپنے مربی مودی کی گود میں پناہ گزین ہوگئی ہے۔ کلمہ طیبہ سے منسلک طبقہ بنگلادیش میں برسراقتدار ہے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان، دونوں کا ایک ہونا کلمہ طیبہ کی بنا پر تھا۔ اب یہ پھر موقع ربّ نے عنایت کیا جس کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ بھارت نے اس موقع کو ضائع کرانے کے لیے بلوچستان کے پی کے میں دہشت گردی کو بڑھاوا دیا ہے۔ ربّ کے حضور معافی کے ساتھ 47 والے پاکستان جیسے ملک کی تکمیل کی جدوجہد کریں۔ اللہ کی چال غالب ہوگی اس وقت جب ہم اور حکمران اللہ کی غلامی میں آجائیں گے، یہ ان شاء اللہ ضرور ہوگا، یہ مصدقہ ہے دل میں کلمہ جاں گزیر ہو امریکا نہیں۔