پیپلز پارٹی کے وفاق اور صوبے میں متضاد چہرے

224

وطن عزیز کے حکمرانوں کی حکمت سے عاری اور بے سمت پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا ملک گزشتہ ایک عرصے سے گوناگوں لاینجل مسائل سے دوچار ہے۔ معروضی حقائق سے بے خبر رہ کر ہمارے حکمران طبقے نے ماضی میں اپنے تئیں بقراط، سقراط اور افلاطون گردان کر جو منصوبے تشکیل دیے ہیں وہ اب ہماری جان کو لاگو ہوچکے ہیں۔ خود کو عقل کل سمجھنے والے حکمرانوں نے ماضی میں جو غلطیاں کی تھیں وہ اب پیر تسمہ پا کی طرح تاحال عوام کی گردنوں اور سروں پر مسلط ہیں۔ خود تو ہمارے خود غرض حکمران جن میں ہماری مقتدرہ کے ذمے داران بھی شامل ہیں، ہر دور میں اوٹ پٹانگ اور ملک اور قوم کے دائمی مفادات کو زک پہنچانے والے فیصلے صادر کرکے دنیا یا اقتدار سے رخصت ہوگئے لیکن ان کی وجہ سے ہونے والے بے حد اور بے حساب نقصانات کو ملک اور قوم ہنوز بھگتنے پر مجبور ہیں۔ ان بے سمت اور زمینی حقائق سے لاعلم رہ کر کیے جانے والے فیصلوں کی وجہ سے ہمارے ملک کے چھوٹوں صوبوں میں بھی احساس محرومی نے جنم لیا ہے۔ جو سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں مختلف انداز اور اطوار سے باقاعدہ اپنا رنگ اور ردعمل بھی دکھا رہا ہے۔ اس وجہ سے بسا اوقات ملکی سلامتی کے حوالے سے بھی اذہان میں خدشات جنم لینے لگتے ہیں۔ المیہ بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے بشمول مقتدرہ نے ابھی تک ماضی سے سبق سیکھا ہے اور نہ ہی اس کا اس بارے میں کوئی ارادہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے کارپوریٹ فارمنگ انیشیٹیو پروگرام کے تحت 48 لاکھ ایکڑ زمین کو قابل کاشت بنانے اور ارسا ایکٹ میں ترمیم کے لیے جو قدم اُٹھایا گیا ہے۔ اس پر صوبہ سندھ میں خاصی ناراضی اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ سندھ کے عوامی، سماجی اور قوم پرست حلقے اس بارے میں بڑی لے دے کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ مذکورہ اقدامات دراصل وفاق کی جانب سے ایک مرتبہ پھر سندھ کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دی گئی 48 لاکھ ایکڑ زمین کے بارے میں توجہ دلائو نوٹس پی پی کے رہنما سید نوید قمر کی جانب سے پیش کیا گیا۔ اس موقع پر انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایسے منصوبے تو ان ممالک میں شروع کیے جاتے ہیں جہاں پر پانی وافر مقدار میں ہوا کرتا ہے۔ کالا باغ ڈیم سے ابھی بمشکل ہماری جان چھوٹی تھی کہ کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر ایک اور مسئلہ ہمارے لیے کھڑا کیا جارہا ہے۔ جواباً وفاقی وزیر مصدق ملک نے کہا کہ حکومت پنجاب نے بنجر علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے یہ منصوبہ شروع کیا ہے جس کے لیے چولستان کینال کی تعمیر بھی کی جائے گی اور پنجاب اپنے حصے کا پانی اس کے لیے دے گا، کسی دوسرے صوبے کا پانی اس مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوگا۔ سندھ سمیت 2 صوبے اس منصوبے کے لیے تیار ہیں اور سندھ نے بھی گرین انیشیٹیو کے لیے اپنی زمین دی ہے۔ جس کے لیے پانی بھی سندھ کے حصے ہی سے استعمال کیا جائے گا۔ پی پی کے رہنما سید خورشید شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں وفاقی وزیر کے جواب سے بڑی مایوسی ہوئی ہے۔ یہ بہت زیادہ حساس مسئلہ ہے، ہم تو تاحال 1991ء کے معاہدے پر بھی جو پانی کے متعلق تھا عمل نہیں کرسکے ہیں، یہ ایوان ایک کمیٹی تشکیل دے اور دیکھے کہ کوٹری سے نیچے کتنا پانی جارہا ہے۔ ابھی تک ٹیلی میٹری سسٹم تک نہیں لگایا گیا ہے۔ یہ حساب کس نے کیا ہے کہ 48 لاکھ ایکڑ زمین کے لیے کتنا پانی درکار ہوگا۔ اس موقع پر انہوں نے دھمکی آمیز لہجے میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہمیں 48 لاکھ ایکڑ زمین چاہیے؟ یا پھر پاکستان چاہیے؟

حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں آج کل کارپوریٹ فارمنگ کے ایشو کو کالا باغ ڈیم کے متنازع منصوبے سے بھی بہت زیادہ خطرناک قرار دے کر اس کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔ معترض حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر 48 لاکھ ایکڑ زمین جو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے مختص کی گئی ہے، سندھ اگر اپنے حصے کا پانی دے گا تو اس صورت میں پھر سندھ کا کیا بنے گا؟ پہلے ہی پانی کی شدید قلت ہے۔ سندھ کے پچھڑی (Tail) کے کاشت کار ہر مرتبہ پانی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ہر فصل کے موقع پر پانی کی عدم فراہمی، عدم دستیابی کے خلاف روڈ راستوں یا مقامی پریس کلبوں کے سامنے سراپا احتجاج بنے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آبادگاروں، ہاریوں، زرعی امور کے ماہرین سمیت تمام معترض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ صوبہ سندھ جو پہلے ہی سے پانی کی سنگین قلت کا شکار ہے اس صورت حال میں مذکورہ منصوبے کی تشکیل اور ارسا ایکٹ میں حالیہ ترمیم کی وجہ سے سندھ کی بنیادیں تک لرز جائیں گی۔ پی پی، قوم پرست رہنما اور زرعی امور کے ماہرین بیک وقت ان منصوبوں کو ملک کے مستقبل کے لیے خطرناک گردانتے ہوئے انہیں ناقابل عمل قرار دے کر اس ترمیم اور منصوبے سے رجوع کرنے کا پرزور مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کا یہ اعتراض قابل توجہ ہونا چاہیے کہ اگر سندھ کا پانی مذکورہ منصوبے کے لیے استعمال ہوا تو سندھ کے باقی حصوں کے زمیندار، ہاری اور آبادگار اس صورت میں آخر کیا کریں گے۔

پانی کی شدید قلت سے دوچار سندھ کے ہاری اور آبادگار آج کل ارسا ایکٹ میں ترمیم اور گرین انیشیٹیو پروگرام کے تحت صوبہ سندھ کے پانی کو بھی زیر استعمال لانے کے مجوزہ منصوبے کی وجہ سے شدید احساس عدم تحفظ میں مبتلا ہو کر اپنے اپنے طور سے جو احتجاج کررہے ہیں، خدشہ ہے کہ اگر وفاقی حکومت اور ترمیم اور منصوبوں کے پس پردہ اصل قوت نے اس حوالے سے بروقت معترض حلقوں کے تحفظات اور خدشات دور نہ کیے تو اس وقت کیا جانے والا احتجاج مستقبل میں بہت زیادہ وسعت اور شدت اختیار کرلے گا جس پر قابو پانا پھر شاید ہماری حکومت کے لیے بہت زیادہ مشکل ہوجائے گا۔ دریں اثنا گزشتہ دنوں پانی کے وسائل سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھی ایک مرتبہ پھر سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ارسا نے کالا باغ ڈیم سمیت دریائے سندھ پر 5 نئے ڈیموں کی سفارش کرنے کے ساتھ اس سے متعلق فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے کے لیے کہا ہے۔ یہ ایک عجیب طرفہ تماشا ہے کہ صوبہ سندھ سمیت تین صوبوں نے اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف اپنی اپنی اسمبلیوں میں قراردادیں پیش کی ہیں۔ اہل سندھ کی اکثریت بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق شدید خدشات اور تحفظات رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود ملک کے حکمران اس ڈیم کی تعمیر کا راگ الاپنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے سندھ میں انتشار اور افتراق کی صورت حال جنم لینے لگتی ہے۔ اس کے باوجود مذکورہ ڈیم کی تعمیر کا شوشا چھوڑنا عقل و فہم سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ ایک قابل ذکر اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک طرف تو قومی اسمبلی اور سندھ بھر میں پی پی کی قیادت گرین انیشیٹیو پروگرام اور ارسا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف بلند آہنگ احتجاج کرتے ہوئے ان کے خلاف واویلا کرنے میں مصروف ہے تو دوسری طرف معروف کالم نگار اور دانش ور نصیر میمن نے 3 ستمبر کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحہ پر اپنے کالم بعنوان ’’ارسا ایکٹ میں تجویز کردہ بدترین ترمیم‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’8 جولائی 2024ء کو ملک کے صدر کے آفس میں گرین پاکستان انیشیٹیو کا ایک اجلاس ہوا۔ جس کی صدارت صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے کی۔ اس کارروائی کی دستاویز کے مطابق زراعت، آبپاشی اور خوراک کے تحفظ سے متعلقہ معاملات کے بارے میں صدر کو آگاہی دی گئی۔ ایجنڈے میں ایک اہم رسم ارسا ایکٹ میں ترمیم کے بارے میں تھا۔ صدر صاحب نے ارسا میں تجویز کردہ ترامیم کی منظوری دی اور اس ایکٹ کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے لیے اپنی مکمل حمایت کا یقین بھی دلایا۔

یہ عجیب بات ہے کہ گرین پاکستان گرین انیشیٹیو کا کیا واسطہ ہے آخر ایک آئینی طور پر قائم کردہ ادارے کے ایکٹ میں ترمیم کروانے سے اور صدر صاحب نے اپنے کون سے اختیارات کے تحت پیش کردہ ترامیم کو منظوری دی ہے؟ اس بارے میں جو بھی پیش رفت ہونی ہے وہ صوبے ہی کرسکتے ہیں اور اس کا بھی آئینی فورم مشترکہ مفادات کی کونسل ہے، گرین پاکستان انیشیٹیو اور صدر پاکستان کے آفس کے ایسا کوئی آئینی اختیار ہی نہیں ہے۔ اس طرح سے یہ نہایت غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے سے فیصلے کرنے کی روایت کو تقویت دی جارہی ہے۔ قبل ازیں ماہ جنوری میں نگراں حکومت نے بھی اپنے وزرا کی مخالفت کے باوجود ارسا ایکٹ میں ترمیم کا ایک آرڈیننس سابق صدر عارف علوی کو بھیجا تھا جسے انہوں نے اعتراض لگا کر واپس کردیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ پی پی کے لیے یہ بالکل درست کہا جاتا ہے کہ وفاق میں اس کا چہرہ الگ ہے اور صوبے میں اس سے یکسر مختلف ہے، جہاں وہ بہ وقت ضرورت حصول مفادات اور عوامی حمایت کے لیے ایک قوم پرست پارٹی کا روپ دھارنے میں بھی کوئی شرم یا عار محسوس نہیں کرتی ہے۔ بروز ہفتہ 7 ستمبر کو حیدر آباد میں ایس یو پی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک بڑے سیمینار بعنوان ’’زراعت بچایو سندھ بچایو‘‘ میں بھی تمام شرکا نے ارسا ایکٹ میں ترمیم کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور گرین انیشیٹیو اسکیم کی سخت مخالفت کی۔