چلتی کا نام گاڑی

187

ہماری صبح بعد از فجر کچھ احباب کے ساتھ تھوڑی دیر کے لیے ایک ہوٹل میں نشست ہوتی ہے جس میں چائے تو ایک بہانہ ہے اس میں مختلف موضوعات پر سیاست سے لے کر موسم کے موضوع تک زیر بحث آتے ہیں۔ اس میں کبھی کبھی شعر و شاعری بھی ہوتی ہے، کوئی پرانی کہاوت، کسی بزرگ کا قول قرآن و حدیث کی کوٹیشن بھی ہماری گفتگو کا حصہ ہوتی ہیں، ہمارے ایک ساتھی شاعر بھی ہیں۔ یہی ساتھی اکثر ایک شعر کہتے تھے ہم بھی اس کو سرسری طور پر سن کر آگے بڑھ جاتے یعنی کسی اور موضوع پر بات شروع کردیتے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہی کہاوت، اہم جملے اور کوئی شعر جو ہم ایک دوسرے کو سناتے رہے تھے کسی دن اسی پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوتا ہے تو اس تدبر اور تفکر سے شعر کی معنویت کا ایک جہاں کھل جاتا ہے اور کچھ اہم اور نئے نکات سامنے آتے ہیں اور اس وقت صورتحال اور بھی دلچسپ ہوجاتی ہے جب اس کا انطباق موجودہ سیاسی حالات پر ہوتا ہوا نظر آئے۔ اسی طرح کا ایک شعر ہمارے ساتھی اکثر سناتے تھے ہم بھی اسے سن کر اپنی دوسری سوچوں میں گم ہوجاتے لیکن دو روز قبل اتفاق سے وہ شعر انہوں نے پھر سنایا ہم نے اس شعر کی حسن و قبح اور اس کے معنویت پر گفتگو شروع کی تو معلوم ہوا یہ شعر تو ہمارے آج کے سیاسی، سماجی، معاشی اور اخلاقی حالات پر پوری طرح منطبق ہوتا ہے۔ آئیے پہلے ہم اس شعر کو دیکھتے ہیں پھر اس کے معنی اور تشریح پر بات کرتے ہیں اور پھر یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارے مجموعی حالات پر کیسے منطبق ہوتا ہے۔ شعر ہے ؎

چلتی کو کہیں گاڑی بنے دودھ کو کھویا
رنگی کو کہیں نارنگی دیکھ کبیرا رویا

کبیرا ایک بڑے شاعر تھے جنہوں نے آنکھوں اور زبان یا دماغ کے تضاد کی نشاندہی کی ہے کہ جو چیز چل رہی ہے اسے ہم گاڑی (یعنی گڑی ہوئی) کہتے ہیں دوسرے الفاظ میں متحرک اور فعال چیز کو ہم جامد اور ساکت بنا رہے ہیں۔ بس اسٹاپ پر کھڑے ہیں اور کہتے ہیں ہماری بس آنے والی ہے لیکن اکثر یہ بھی کہتے ہیں گاڑی آنے والی ہے ریلوے اسٹیشن پر اپنی ٹرین کا انتظار کرتے ہوئے عموماً یہ جملہ کہتے ہیں کہ بس گاڑی آنے والی ہے۔ گاڑی کا مطلب گاڑ دینے والی چیز۔ اسی لیے قرآن مجید میں آخرت کی منظر کشی کرتے ہوئے یہ ڈرا دینے والا خوفناک جملہ آیا ہے کہ جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کیوں قتل کیا گیا۔ اسی طرح دودھ کو مزید پکاتے ہیں تاکہ اس کا مزہ اور اچھا ہوجائے اس کا رنگ بھی تھوڑا سا بدل جاتا ہے لیکن ہمارے سامنے ہی ہوتا ہے ہم اس کو بڑے چمچے سے چلا رہے ہوتے ہیں لیکن سامنے نظر آنے والے دودھ کو ہم کہتے ہیں کہ کھو گیا یعنی (کھویا)۔ قدرت نے کتنا حسین اور جازب نظر رنگ کا ایک پھل ہمیں دیا ہم نے اس خوبصورت رنگ والے پھل کو نارنگی بنادیا یعنی اس پھل کا کوئی رنگ ہی نہیں ہے۔ اب دیکھیے یہ تو ایک شعر ہے جس میں شاعر نے ہمارے دیکھنے اور سمجھنے کے تضادات کی نشاندہی کی ہے۔

ہمارے ملک کے اس وقت جو حالات ہیں یہ شعر ان حالات پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ جس صبح یہ بات ہورہی تھی اسی دن کے کئی اخبارات میں یہ شہ سرخی لگی تھی کہ مہنگائی تین سال بعد سنگل ڈیجٹ میں آگئی۔ اگست 2024 میں شرح 9.6 فی صد رہی جو اکتوبر 2021 کے بعد کم ترین ہے۔ لیکن مارکیٹ میں تورئی وہی 300 روپے کلو تھی جو دو ہفتے پہلے تھی ٹماٹر 200 روپے کلو کئی ہفتوں سے چل رہا ہے۔ دودھ کئی مہینوں سے 220 روپے کلو ہے آٹا، چینی اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتیں وہی ہیں جو پہلے سے چل رہی ہیں یعنی یہ ساری قیمتیں ایک طرح سے گڑی ہوئی (گاڑی) ہیں اور ہمارے وزیر اعظم صاحب خوشی خوشی قوم کو خبر دے رہے ہیں کہ مہنگائی کم ہوگئی اگر شاعر کبیرا زندہ ہوتے تو روتے روتے بے ہوش ہو جاتے۔ اسی حوالے سے ہمیں مشتاق یوسفی کا جھوٹ کی اقسام کے حوالے سے یہ جملہ بالکل ٹھیک لگتا ہے کہ جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک تو جھوٹ دوسرا سفید جھوٹ اور تیسرا سرکاری اعداد وشمار۔ میرے خیال سے اگر آج مشتاق یوسفی صاحب زندہ ہوتے تو وہ جھوٹ کی چار قسمیں کردیتے اور چوتھی قسم الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انتخابی نتائج کو قرار دیتے۔

9 مئی 2023 کو ایک سانحہ ہوا۔ پہلے زمانے میں جب ہم اپنی فوٹو گراف بنواتے تھے تو اس فوٹو کے ساتھ ہمیں ایک نیگیٹیو بھی ملتا تھا جس میں کچھ سیاہ اور دھندلا سا عکس نظر آتا تھا تاکہ اگر بعد اور فوٹو کی ضرورت پڑے اس سے بنوالی جائے اسی طرح اس سانحے کی بھی دو تصویریں ہیں ایک تو وہی پازیٹو جو ہمیں کیمروں میں واضح نظر آرہے ہیں ان میں سے لوگ گرفتار بھی ہیں ان پر مقدمات بھی چل رہے ہیں لیکن اس کی ایک نیگیٹیو بھی کہیں ہوگی جس کی سیاہی اور دھندلاہٹ میں کوئی چیز واضح نظر نہیں آرہی اسی لیے تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ 9 مئی کے واقع کی تحقیقات کے لیے جیوڈیشل کمیشن بنایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ خیر یہ تو ایک میرا اضافی جملہ تھا میں اوپر دیے ہوئے شعر کے پس منظر میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ ہماری آج کی حکومت اور بالخصوص ن لیگ نے نو مئی کو گاڑ لیا یعنی اسے گاڑی بنا کر جامد و ساکت کردیا جبکہ قوم نے اس کا بہت زیادہ اثر نہیں لیا اور متحرک اور فعال رہی اور یہی وجہ ہے کہ 9 مئی 2023 کے بعد 8 فروری 2024 بھی آیا جس میں قوم نے اسی تحریک انصاف کو بھرپور ووٹ دیے جس پر 9 مئی کے سانحے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

ہم اپنے ملک کا کوئی بھی مسئلہ اٹھا کر دیکھ لیں اس میں ہمیںچلتی ہوئی چیز گڑی ہوئی، دکھائی دینے والی چیز کھوئی ہوئی لگتی ہے۔ 8 فروری الیکشن میں پوری قوم نے دیکھا کہ کون لوگ جیتے ہیں لیکن وہ دکھائی دینے والی جیت کہیں کھو گئی یوں سمجھ لیجیے کہ فارم 45 کے خوبصورت رنگ کو نارنگ کردیا اور فارم 47 والے بد رنگ کو اقتدار دے دیا گیا۔ ہم نے مضمون کا آغاز ایک شعر سے کیا تھا اسی شعر کی معنویت سے ملتے جلتے ایک شعر سے اختتام کرتے ہیں۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گرکھلا