لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) ڈی جی آئی ایس پی آر کاسیاسی ایجنڈا نہ ہونیکا دعویٰ صرف زبانی جمع خرچ ہے‘سیاسی و سماجی رہنمائوں، دانشوروں اور ماہرین قانون نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ پاک فوج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا یہ کہنا کہ فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، ایک زبانی دعوے کی حد تک تو بہت خوش آئند ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے مگر ملک کے عملی حالات اس کی تائید نہیں کرتے، پاک فوج کو اپنے اس دعوے کو حقیقت بنانے کے لیے زبانی سے زیادہ عملی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ قوم کا اعتماد بحال ہو سکے اور پاک فوج کو شدید عوامی تنقید سے نجات مل سکے۔ روزنامہ ’’جسارت‘‘ نے جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر مولانا محمد جاوید قصوری، ممتاز سیاسی تجزیہ نگار سلمان عابد اور ماہر آئین و قانون، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ذوالفقار چودھری ایڈووکیٹ کے سامنے یہ سوال رکھا کہ ’’ڈی جی آئی ایس پی آر کی یہ بات کتنی درست ہے کہ فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں؟‘‘ تو مولانا محمد جاوید قصوری کا جواب تھا کہ اصولی طور پر تو ہم اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں بیان سے زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے‘ بیان کی روشنی میں سیاسی منظر نامہ پر اس کی تصدیق تک قوم کا اعتماد بحال نہیں ہو گا‘ جماعت اسلامی کا یہ موقف رہا ہے کہ تمام اداروں کو آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں‘ فوج، عدلیہ اور مقننہ کو آئین میں طے شدہ دائرہ کار میں رہ کر اپنا اپنا کام کرنا چاہیے مگر المیہ یہ ہے طاقت کے بل بوتے پر اپنی حدود سے تجاوز اور دیگر اداروں کے کام میں مداخلت کی جاتی ہے جس سے پورا نظام تلپٹ ہو چکا ہے اور ملک میں آئین کی بالادستی کہیں نظر نہیں آتی‘ فروری 2024ء کے عام انتخابات میں فارم 45 کے مطابق منتخب شدہ لوگوں کے بجائے فارم 47 کے ذریعے جس طرح مخصوص لوگوں کو عوام پر مسلط کیا گیا اور جس طرح ان کی سرپرستی کا سلسلہ جاری ہے اس کے بعد یہ دعویٰ کہ ہمارا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں، قوم کیسے درست مان لے گی‘ ایسے بیانات جاری کرنے کے بجائے عملی اقدامات کیے جائیں تو تب ہی عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ سلمان عابد نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان قابل تعریف و ستائش ہے مگر لفظی بیانات سے بڑھ کر عملی اقدامات کی ضرورت ہے، فوج خود کو ملکی دفاع تک محدود کرے اور اپنی تمام توجہ اس بنیادی کام پر مرکوز رکھے‘ محض تقاریر کافی نہیں کہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں‘ عملاً سیاسی امور میں الجھنے سے گریز کیا جائے تاکہ ہر غلط کام اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو کیونکہ اس سے پاک فوج کو شدید نقصان اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ پاکستان کے موجودہ حالات میں سب جانتے ہیں کہ سیاست کا جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں اسٹیبلشمنٹ تمام معاملات میں بالادست ہے‘ اس صورت حال سے فوری چھٹکارا بھی ممکن نہیں البتہ بنیادی اصول طے کر کے آہستہ آہستہ اس سے نجات پانا چاہیے بصورت دیگر بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا جو آج بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ذوالفقار چودھری ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ یہ کہنا قطعی درست نہیں ہے کہ فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، حقیقت یہ ہے کہ فوج کا صرف سیاسی ایجنڈا ہے، سیاسی حکومتیں بنانا اور انہیں غیر مستحکم کرنا جس کا بنیادی حصہ ہے، عوام اور دوسرے اداروں کے حقوق کا قطعی احترام نہیں کیا جاتا، پاکستان بننے سے آج تک فوج سیاسی جوڑ توڑ کرتی چلی آ رہی ہے اور یہاں تمام تبدیلیاں اس کی مرضی کے تابع ہوتی ہیں‘ فوج نے ایک نرسری بنا رکھی ہے جہاں سیاسی پودوں کی پرورش کی جاتی ہے‘ بھٹو، نواز شریف اور عمران خان اسی نرسری میں پروان چڑھائے گئے‘ ملکی استحکام کا تقاضا ہے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے کیونکہ جب ان حدود سے تجاوز کیا جاتا ہے تو دوسرے اداروں کے حقوق چھینے جاتے اور اپنے حقیقی فرائض سے غفلت برتی جاتی ہے، اس وقت کوئی ادارہ نہیں جہاں فوج کا تسلط نہ ہو حتیٰ کہ اسمبلی کے اجلاس تک میں مداخلت کی جاتی ہے اور وہاں بیٹھے لوگ کٹھ پتلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے‘ پاکستان کو چلانے اور اس کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ آئین و قانون کی سب پابندی کریں‘ آئینی حدود میں رہیں گے تو ملک اور عوام کے مسائل کے حل کی راہ نکل سکے گی ورنہ نہیں۔