’’ٹیلی گرام‘‘ نے بھی مجبور ہوکر سینسرشپ قبول کرلی

435

دنیا بھر میں حکومتوں کی طرف سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، میسیجنگ ایپس اور مائکرو بلاگنگ ویب سائٹس پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ حکومتیں چاہتی ہیں کہ اُن کے خلاف کسی بھی طرح کا مواد کسی بھی آن لائن پلیٹ فارم سے شیئر نہ کیا جائے۔

جب کوئی ویب سائٹ، سوشل میڈیا پلیٹ فارم یا میسیجنگ ایپ بات نہیں مانتی تو اُسے بلاک کردیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ یو ٹیوب اور مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ کو آئے دن حکومتوں کی طرف سے بندش کا سامنا رہتا ہے۔ واٹس ایپ کا بھی ہی معاملہ ہے۔ واٹس ایپ مواد کی شیئرنگ کا پلیٹ فارم ہے اور حکومتیں چاہتی ہیں کہ حکومت یا ریاست کے خلاف کسی بھی قسم کا مواد شیئر کرنے کے لیے واٹس ایپ کو استعمال نہ ہونے دیا جائے۔

گزشتہ ماہ فرانس میں ٹیلی گرام نامی آن لائن پلیٹ فارم کے مالک اور سی ای او پاول ڈیوروف کا گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اُن پر ایک بنیادی الزام یہ تھا کہ انہوں نے اسرائیل کے خلاف مواد کو سینسر کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس گرفتاری پر ’’ایکس‘‘ کے سربراہ ایلون مسک نے کہا تھا کہ جو لوگ اسرائیل کے خلاف مواد کو سینسر کرنے سے انکار کر رہے ہیں یہ گرفتاری اُن کے لیے واضح پیغام ہے۔ مختلف الزامات کے تحت ’’ایکس‘‘ کو بھی پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔

اب معلوم ہوا ہے کہ ٹیلی گرام نے خاموشی سے اپنی پالیسی بدل دی ہے اور پرائیویسی کو داؤ پر لگادیا گیا ہے۔ صارفین کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی نوعیت کے قابلِ اعتراض مواد کی نشاندہی کریں۔ اُن کی طرف سے نشاندہی کیے جانے پر متعلقہ مواد کو ہٹایا جاسکتا ہے، سینسر کیا جاسکتا ہے۔

یہ سینسر شپ انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی چیٹس پر لاگو ہوگی۔ صارفین کو اس حوالے سے چند ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ ایلون مسک کا کہنا ہے کہ کسی بھی آن لائن پلیٹ فارم کو سینسر شپ سے گزارنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔