بھارت میں تسلیمہ نسرین کے لیے بھی مشکلات بڑھ گئیں

426

دریدہ دہن بنگلا دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین اسلام سے متعلق انتہائی اہانت آمیز تحریروں پر شدید ردِعمل سے بچنے کے لیے برسوں پہلے بنگلا دیش سے بھاگ کر بھارت کی شرن میں چلی گئی تھی۔ وہ تب سے اب تک بھارت میں مقیم ہے اور بھارتی حکومت اُس کی سیکیورٹی کا اہتمام بھی کرتی ہے۔

تسلیمہ نسرین بنگلا کی صورتِ حال سے تو پریشان ہے ہی، اب اُسے بھارت میں رہائش کے اجازت نامے کی تجدید کے مرحلے سے بھی گزرنا ہے۔ بھارتی حکومت نے اس کے اجازت نامے کی تجدید نہیں کی ہے۔ یہ معاملہ زیرِغور ہے۔ تسلیمہ نسرین کو خوف ہے کہ کہیں اُسے بھارت سے جانے کو نہ کہہ دیا جائے۔

تسلیمہ نسرین کی پریشانی اِس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ بنگلا دیش کی کی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد نے بھی اپنے ملک سے بھاگ کر بھارت میں پناہ لی ہوئی ہے۔ بنگلا دیش کی عبوری انتظامیہ اور مرکزی سیاسی جماعتیں اُن کی حوالگی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ بنگلا دیش کی عبوری انتظامیہ کے سربراہ (چیف ایڈوائزر) ڈاکٹر محمد یونس بھی کہہ چکے ہیں کہ جب تک شیخ حسینہ واجد کو بنگلا دیش کے حوالے سے نہیں کردیا جاتا، بنگالیوں کے دل کو سُکون نہیں ملے گا۔

بنگلا دیش کی سابق حکمراں جماعت بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی بھی مطالبہ کرتی رہی ہے کہ نئی دہلی اب شیخ حسینہ واجد کو ڈھاکا انتظامیہ کے حوالے کرے تاکہ اُن کے خلاف قتلِ عام اور جنگی جرائم کے الزامات کے تحت مقدمات چلائے جاسکیں۔ یہ مقدمات انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے تحت چلائے جائیں گے۔

شیخ حسینہ واجد کے لیے ابتدائی دن بہت پریشان کن تھے کیونکہ امریکا اور برطانیہ نے، غیر اعلانیہ طور پر، اُنہیں اپنے ہاں پناہ دینے سے بظاہر معذوری ظاہر کی تھی۔ اب تسلیمہ نسرین بھی اس بات سے خوفزدہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مودی سرکار اپنے سر سے بلا ٹالنے کے لیے اُسے بنگلا دیش کے حوالے کردے یا کسی اور ملک جانے کا کہہ دے۔ کسی اور ملک میں تسلیمہ نسرین کے لیے سیکیورٹی کا وہ انتظام نہیں کیا جاسکتا جو بھارت میں کیا گیا ہے۔