حکومت اور مرکزی بینک اسلامی معیشت و بینکاری میں سنجیدہ نہیں ہے؟

298

اطلاعات یہی ہیں کہ شرح سود میں مزید 100 سے 200 بی پی ایس کمی کا امکان ہے لیکن ملکی معیشت کو تباہی سے بچانے کے سود کا خاتمہ ضروری ہے لیکن حکومت فری ملکی معیشت اور مرکزی بینک اسلامی بینکاری میں غیر سنجیدہ نظر آرہی ہے ۔ تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ اسٹیٹ بینک مہنگائی میں کمی اور بہتر میکرو اکنامک اشاریوں کی وجہ سے مسلسل تیسری بار کمی کرے گی ۔مرکزی بینک 12 ستمبر کو شرح سود کا اعلان کرنے والا ہے۔ واضح رہے کہ اس نے اپنے پچھلے دو اجلاسوں میں مجموعی طور پر شرح میں 250 بیسس پوائنٹس کی کمی کی ہے۔

مشترکہ بیان میں چیئرمین بی ایم جی اور کے سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ افراط زر کی شرح 9.6 فیصد تک گرنے کے بعد تین سال کی کم ترین شرح پر آچکی ہے جو پالیسی ریٹ میں کمی کا ایک مضبوط جواز ہے۔ یہ کمی مئی 2023 میں 38 فیصد کی بلندی پر جانے کے بعد آئی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ مہنگائی کا دباؤ کم ہوا ہے۔سنگل ڈیجٹ کی افراط زر کی شرح اکتوبر 2021 میں دیکھی گئی تھی جب یہ 9.2 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی اور اُس وقت پالیسی ریٹ 7.25 فیصد تھالہٰذا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ صنعتی اور اقتصادی سرگرمیوں کو متحرک کرنے کے لیے پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی کی اشد ضرورت ہے۔
بروکریج ہاؤس عارف حبیب لمیٹڈ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہم 150 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) کی کٹوتی کی توقع کررہے ہیں جس سے پالیسی ریٹ 18 فیصد پر آجائیگا جو آخری بار فروری 23 میں تھا جب یہ 17 فیصد تک گرگیا تھا۔

چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی) کے صدر افتخار احمد شیخ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اگلی مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں کم از کم 500 بیسس پوائنٹس کی خاطر خواہ کمی کا اعلان کرے اور موجودہ شرح سود کو 19.5فیصد سے کم کرکے 14.5 فیصد پر لایا جائے چونکہ اگست میں مہنگائی کم ہو کر 9.6 فیصد پر آگئی ہے جبکہ موڈیز نے بھی حال ہی میں مقامی اور غیر ملکی کرنسی جاری کرنے والے اور سینئر غیر محفوظ قرضوں کی درجہ بندی کو بھی سی اے اے3 سے اپ گریڈ کرتے ہوئے سی اے اے2 کیا ہے۔

جولائی میں مرکزی بینک کی ایم پی سی نے کلیدی پالیسی ریٹ کو 100 بی پی ایس کم کرکے 19.5 فیصد کردیا تھا۔اگست 2024 ء میں پاکستان میں افراط زر کی شرح سالانہ بنیاد پر 9.6 فیصد رہی جو جولائی 2024 کے مقابلے میں کم ہے جب یہ 11.1 فیصد تھی۔ ادارہ شماریات کے مطابق سی پی آئی پر مبنی افراط زر کی شرح 3 سال کے عرصے کے بعد سنگل ڈیجٹ میں واپس آگئی اس کے نتیجے میں ‘‘1،000 بی پی ایس کی حقیقی شرح سود پیدا ہوئی ہے جس سے شرح سود میں مزید کٹوتی کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ایک اور بروکریج ہاؤس جے ایس گلوبل نے بھی اپنی رپورٹ میں اسی طرح کی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افراط زر میں کمی سے ایم پی سی کے ستمبر کے اجلاس میں مسلسل تیسری بار شرح سود میں 150 بی پی ایس کی کٹوتی کا امکان ہے جس سے پالیسی ریٹ 18 فیصد تک گر جائیگی۔

مالی سال2024 ء میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ انڈیکس میں نمو 0.9 فیصد کی معمولی سطح پر رہی جو طویل عرصے سے جاری بلند پالیسی ریٹ کی شرح کے منفی اثرات کو نمایاں کرتی ہے۔اس لیے پالیسی ریٹ میں کمی نہ صرف مینوفیکچرنگ سیکٹر کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم کرے گی بلکہ اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کا بھی سبب بنے گی۔مجموعی قرضوں میں نجی شعبے کا حصہ جولائی 2019 میں 29.7 فیصد سے کم ہو کر جولائی 2024 میں 19.8 فیصد رہ گیا ہے۔پالیسی کی شرح کو کم کرنے سے نجی شعبے میں قرض لینے اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے جس سے معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔

پاکستان کی حقیقی شرح سود یعنی پالیسی ریٹ مائنس افراط زر اس وقت 9.9 فیصد ہے جو کہ پڑوسی ممالک بھارت، چین اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھا جہاں حقیقی شرح سود بالترتیب 3.0 فیصد، 2.9 فیصد اور مائنس 3.2 فیصد ہے۔اس صورتحال میں پالیسی ریٹ میں کمی یقینی طور پر پاکستان کی علاقائی مسابقت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔پالیسی ریٹ میں 1 فیصد کمی سے تقریباً 467 ارب روپے کے قرضوں کی فراہمی کے اخراجات کی بچت ہو سکتی ہے جس سے خاطر خواہ مالی ریلیف ملے گا اور حکومت پر مالی بوجھ کم ہو گا۔

عالمی اجناس کی قیمتوں میں نمایاں کمی بشمول گندم کی قیمتوں میں 23.1 فیصد کمی اور ملکی زرعی پیداوار میں بہتری نے مہنگائی کے دباؤ کو کم کیا ہے۔ اگست 2021 کے 7 فیصد پالیسی ریٹ کو مئی 2023 تک 22 فیصد تک تیزی سے بڑھا نا مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے مؤثر نہیں تھا لہذا متبادل مانیٹری اقدامات پر غور کرتے ہوئے پالیسی کی شرح میں کمی کی جانی چاہئے جس سے معاشی ترقی میں تیزی آئے گی۔جولائی 2024ء تک مجموعی قرضوں میں حکومت کا حصہ بڑھ کر 79.3 فیصد تک پہنچ گیا جبکہ نجی شعبے کا ہجوم محروم رہا۔پالیسی کی شرح میں کمی سے نجی شعبے کی طرف قرض کی تقسیم کو متوازن کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اِن تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اسٹیٹ بینک اپنے اگلے مانیٹری پالیسی اسٹیٹمنٹ کے اعلان میں کم از کم 500 بیسس پوائنٹس کی خاطر خواہ کمی لے کر آئے گا جس کا تاجر برادری کی جانب سے بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا جائے گا کیونکہ اس سے کاروبار کو اشد ضروری ریلیف فراہم کرنے میں مدد ملے گی جو کاروبار کرنے کی بے پناہ لاگت کی وجہ سے بقا کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔
10جولائی کو گورنر اسٹیٹ بینک نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایاکہ سود کے خاتمہ کے لیے کام جاری ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے سود پر مبنی معاشی نظام کو اسلامی شریعت کے برخلاف قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ملک کے بینکاری نظام کو دسمبر سنہ 2027 تک مکمل طور پر سود سے پاک کیا جائے۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ تمام قرض سود سے پاک نظام کے تحت لیے جائیں۔ لیکن اس کے برعکس وزیرِ خزانہ اورگورنراسٹیٹ بینک سمیت سب ہی سود دکی پرورش اور اس ؛کے کے نفاذکے سلسلے میں سرگرم نظر آتے ہیں۔اسٹیٹ بینک کی”‘ مانیٹری پالیسی کمیٹی “ہر اجلاس کا ایجنڈا یہی ہو تا ہے کہ شرح سود میں اضافہ کے لیے عوامل پر غور کیا جائے ۔ اس کمیٹی کے ارکان کو اسٹیٹ بینک ہر طرح کی سہولت فراہم کر تی ہے

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سود سے بچنے کے لیے چند اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیںجس جواب یہی دیا جاتا ہے کہ اسلامی بینکاری: اسلامی بینکوں کا استعمال کریں جو سود سے پاک مالیاتی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ یہ بینک شریعت کے مطابق کام کرتے ہیں اور سود کی بجائے منافع اور نقصان کی بنیاد پر لین دین کرتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا کو ئی بھی بینک نہیںجس میں سود کی لعنت کسی نہ کسی طور پر موجود نہ ہو۔

اس سلسلے میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میںبھی اب تک سود کے نقصانات اور اسلامی مالیاتی اصولوں کے بارے میں آگاہی طلبہ کو طالبات نہیں دی جاتی ہے ۔ جس سے آپ کو سود سے بچنے میں مدد ملے گی اور آپ اپنے مالی معاملات کو بہتر طریقے سے سنبھال سکیں گے۔علماء ِ کرام یہی مشورے دیتے ہیں کہ ذاتی مالیاتی نظم: اپنے مالی معاملات کو منظم کریں اور غیر ضروری قرضوں سے بچیں۔ اگر قرض لینا ضروری ہو تو سود سے پاک ذرائع تلاش کریں۔یہ سن کچھ کہاں سے حاصل ہو گا ۔
جون کے شروع تک پاکستان میں شرح سود ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 21 فیصد پر موجود تھا۔ عبوری حکومت کی تبدیلی سے قبل ملک میں شرح سود 12.5 فیصد پر تھی جس میں ایک سال میں ساڑھے نو فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو کسی بھی حکومت کے پورے پانچ سال یا اس سے کم مدت کے دور میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے سے صرف دو دن قبل ا سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں ڈھائی فیصد اضافہ کر کے اسے 12.5 فیصد کر دیا تھا۔موجودہ حکومت کے قیام کے بعد مئی 2022 میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید ڈیڑھ فیصد اضافہ کیا اور اس کی مجموعی شرح چودہ فیصد ہو گئی۔مئی کے بعد نومبر کے مہینے میں شرح سود میں مزید ایک فیصد کا اضافہ کیا گیا اور جنوری کے مہینے میں اس میں مزید اضافہ دیکھا گیا۔ موجودہ سال مارچ کے مہینے کے آغاز پر شرح سود میں ایک بڑا اضافہ کیا گیا اور اسے 20 فیصد کر دیا گیا۔

شرح سود میں اس بڑے اضافے کی وجہ آئی ایم ایف کی شرط قرار دیا گیا تھاجس کے تحت پاکستان کو ملکی شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا اورملکی معیشت تباہ ہو تی رہی ہے۔ اسی شرط کے تحت اپریل کے مہینے کے آغاز پر شرح سود میں مزید ایک فیصد اضافہ کر دیا گیا تاکہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے اس شرط کو پورا کیا جا سکے۔

ٰٓٓٗ ٰٰٓٓٓ ٓٓآئی ایم ایف کے معاشی ماہرین یہی کہتے رہے ہیں کہ سیاسی بیانات اور فوائد کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے اقدامات کو تاخیر سے کرنا بھی ایک غلطی تھی۔ آئی ایم ایف پروگرام پر حکومت نے جانتے بوجھتے سیاسی بیانات دیے اور اس پر عملددرآمد درست انداز میں نہیں کیا۔جس کے نتیجے میں ہماری برآمدات گر گئی، روپے کے قدر میں گراوٹ کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی ہوئی اور ملک میں مہنگائی اور شرح سود میں اضافہ ہوا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومتی عہدیداروں کے جھوٹ نے ملک میں شرح سود کو دس فیصد سے بڑھا کر آج 21 فیصد پر پہنچایا گیا لیکن حقیقت یہی ہے ہماری معاشی انتظامیہ ملک سے سود کی لعنت کو خرم کر نا ہی نہیں چاہتی ہے۔