اسرائیل میں احتجاج ‘نیتن یاہو کے لیے کتنا خطرناک

190

غزہ سے 6یرغمالوں کی لاشیں ملنے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے جس کے لیے ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔ اسرائیلی شہری یرغمالوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے لیے نیتن یاہو کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں اور دیگر 100 یرغمالوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی معاہدے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 7اکتوبر ہونے والے حملے میں حماس نے 250 اسرائیلیوں کو اغوا کر لیا تھا۔ حماس کے حملے کے بعد غزہ میں شروع ہونے والی جنگ کو 11 ماہ ہوچکے ہیں۔ اس دوران یرغمالوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی کے ممکنہ معاہدے کے لیے وزیرِ اعظم پر دباؤ رہا ہے۔ تاہم 6یرغمالوں کی لاشیں ملنے کے حالیہ واقعے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔نیتن یاہو کی حکومت میں شامل ان کے اتحادی، اعلیٰ سیکورٹی حکام اور اسرائیل کے سب سے اہم بین الاقوامی اتحادی امریکاکی جانب سے بھی جنگ بندی کے معاہدے پر اصرار بڑھ رہا ہے۔ تاہم اس صورتِ حال کے باوجود غزہ میں جنگ روکنے کے کسی معاہدے کے امکانات تاحال واضح نہیں ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یرغمالوں کی بازیابی کے لیے بڑھتا عوامی دباؤ نیتن یاہو کی حکومت پر کس طرح انداز ہوگا؟ آیا وہ جنگ کے ماحول میں اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہوپائیں گے؟

غزہ جنگ کے دوران نیتن یاہو کے ناقدین کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ وزیر اعظم کے لیے سیاسی بقا یرغمالوں کی سلامتی سمیت کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔ اسرائیل کے لبرل روزنامہ اخبار ہارٹز نے اتوار کے روز اپنے اداریے میں لکھاکہ حماس نے بندوق کا ٹرگر دبایا لیکن (یرغمالوں کو) سزائے موت سنانے والے نیتن یاہو ہیں۔نیتن یاہو کی حکومت 2انتہائی قوم پرست جماعتوں کی مدد سے کھڑی ہے جو اس سے پہلے اسرائیلی سیاست میں ایک محدود گروہ کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اب حکومت میں اہم پوزیشن پر ہیں۔حکومت کا وہ حصہ جو جنگ کے خاتمے اور اسرائیلیوں کے قتل کے الزام میں قید سزا یافتہ فلسطینیوں کی رہائی کی مخالفت کر رہا ہے اس کی سربراہی وزیرِ خزانہ بذلیل سموٹرچ اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر کر رہے ہیں۔یہ رہنما پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ نتین یاہو نے اگر جنگ بندی کا معاہدہ کیا تو وہ ان سے اپنے راستے الگ کرلیں گے جس کے بعد نیتن یاہو کی حکومت ختم ہوجائے گی۔ حکومت ختم ہونے کے بعد انتخابات ہوں گے جن میں نیتن یاہو کے دورباہ برسرِ اقتدار آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔مقبوضہ بیت المقدس کی ہیبریو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرِ سیاسیات ریوون ہزان کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کو صرف اپنی سیاست کی فکر ہے۔ بن گویر اور سموٹرچ انہیں جنگ ختم کرنے اور یرغمالوں کی واپسی نہیں کرنے دیں گے۔

ا س کے علاوہ اس وقت وزیر اعظم کے سر پر کرپشن کے الزامات کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اگر نیتن یاہو کی حکومت ختم ہوجاتی ہے تو وہ عدالتی نظام میں تبدیلی کرنے کے اپنے عزائم پورے نہیں کر پائیں گے۔ واضح رہے کہ نیتن یاہو عدالتی نظام پر متعصب اور جانب دار ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔حکومت ختم ہونے کے بعد نیتن یاہو جب قانونی نظام میں تبدیلیاں کرنے میں ناکام ہوجائیں گے تو اس کا نتیجہ لازمی طورپر ان کے خلا ف زیر التوا بدعنوانی کے کیس کھلنے کی صورت میں سامنے آئے گا او ر ان کے مخالفین ان کو سزا دلوانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ مصر اور غزہ کے درمیان سرحدفلاڈیلفی کوریڈور پر سرنگوں سے اسلحہ اسمگل کیا جاتا ہے۔نیتن یاہو کہتے ہیں کہ اسرائیل کا مفاد ان کی پہلی ترجیح ہے اور غزہ میں جاری فوجی کارروائی یرغمالوں کی آزادی کا بہترین طریقہ ہے۔ وہ کوئی ایسا معاہدہ بھی چاہتے ہیں جس کے بعد اسرائیلی فوج غزہ کی دو راہداریوں میں مستقل بنیادوں پر موجود رہے۔ دوسری جانب حماس کی جانب سے نتساریم اور فلاڈلفی نامی راہ داریوں میں اسرائیلی فورسز کی موجودگی کا مطالبہ مسترد کردیا گیا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان امریکاکی مدد سے جنگ بندی کے جس مجوزہ معاہدے کے لیے بات چیت جاری ہے اس میں ان راہداریوں کا کنٹرول شامل ہے یا نہیں۔ ایک طرف نیتن یاہو مسلسل ان راہ داریوں میں اسرائیلی فوج کی موجودگی پر اصرار کر رہے ہیں جب کہ دوسری طرف وزیرِ دفاع یوو گیلانت نے راہداریوں سے متعلق شرط کو غیر ضروری قرار دیا ہے اور وزیر اعظم کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس غیر ضروری رکاوٹ کی وجہ سے ہم جنگ کے نتائج حاصل نہیں کر پائیں گے۔

اس صورت حال میں اگر امریکا کے موقف کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی اسرائیلی وزیراعظم کے کردار سے مطمئن نہیں ہے۔ ا س سے قبل صدر بائیڈن سے سوال کیا گیا کہ کیا نیتن یاہو جنگ بندی معاہدے پر مذاکرات کے لیے مطلوبہ کوششیں کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے اس کا جواب انکار میں دیا۔امریکا اور اسرائیل کے قریبی تعلق کے باوجود صدر بائیڈن نے کبھی نتین یاہو سے مکمل اتفاق نہیں کیا ہے بلکہ ان کے بارے میں بائیڈن کا رویہ بتدریج ناقدانہ ہو رہا ہے۔غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل میں یرغمالوں اور ان کے اہل خانہ سے یکجہتی کے لیے ہفتہ وار احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لیکن اسرائیل میں حالات معمول پر ہیں،جب کہ اسرائیل کے ایران اور لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ سے تصادم کے خطرات اور خطے میں پھیلتے جنگ کے سایوں کی وجہ سے احتجاج اور مظاہروں کا دائرہ محدود ہوتا چلا گیا۔ اس کی وجہ سے نیتن یاہو پر دباؤ کم رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ایک بار پھر تل ابیب میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے غزہ میں یرغمال 100 افراد کی بازیابی کے لیے فوری معاہدہ کرو کے نعرے لگائے۔ غزہ جنگ سے قبل ایسے مظاہرے نیتن یاہو کی عدلیہ میں اصلاحات کے لیے لائے گئے قوانین کے خلاف دیکھے گئے تھے۔

مظاہروں اور عام ہڑتال نے نیتن یاہو اور ان کی حکومت کو کچھ پسپائی یا موقف میں نرمی پر مجبور کیا تھا ۔پھر جنگ شروع ہونے کے بعد سے عدالتی اصلاحات تعطل کا شکار ہوگئی تھی۔تاہم حالیہ عوامی احتجاج اور دباؤمیں پہلے جیسا دم خم نہیں تھا، کیوں کہ اس میں اسرائیل کی تمام سیاسی قوتیں شامل نہیں تھیں۔ ان میں اکثریت لبرل اور سیکولر اسرائیلیوں کی تھی جو عدالتی قوانین میں تبدیلیوں اور نیتن یاہو کی قیادت پر کرپشن کے الزامات کے خلاف پہلے ہی احتجاج کر رہے تھے۔ موجودہ صورتِ حال میں نیتن یاہو کے انتہاپسند حامیوں کا کہنا ہے کہ 6یرغمالوں کی ہلاکت کے بعد اگر کوئی نرمی دکھائی جاتی ہے تو حماس کو یہ پیغام ملے گا کہ تشدد سے مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پیر کے روز جب ہڑتال کا اعلان کیا گیا تو اسرائیل میں یہی سیاسی تقسیم نظر آئی۔ تل ابیب سمیت لبرل علاقوں میں مکمل ہڑتال ہوئی اور کئی جگہوں پر اسکولوں سمیت دیگر شعبے بھی بند رہے۔لیکن مقبوضہ بیت المقدس سمیت ایسے دیگر شہروں میں ہڑتال نہیں ہوئی جہاں قدامت پسند اور انتہاپسند مذہبی آبادی زیادہ ہے اور وہاں نیتن یاہو کی حمایت بھی پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک لیبر کورٹ نے ہڑتال میں کئی گھنٹے کم کرنے کے احکامات دیے جس کی وجہ سے اس کا اثر مزید کم ہو گیا۔سیاسی مبصر ین کا کہنا ہے کہ احتجاج جس پیمانے پر ہوا ہے اس کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ اس سے نیتن یاہو پر مو قف کی تبدیلی کے لیے کتنا دباؤ بڑھے گا۔ جب تک نیتن یاہو کی حکومت مستحکم ہے وہ اپنے اتحادیوں کو خوش رکھنے کے لیے مذاکرات میں اپنے مطالبات پر ڈٹے رہیں گے اور احتجاج اور مظاہروں کو نظر انداز کرتے رہیں گے۔
OOOOO