7 ستمبر:عقیدۂ ختمِ نبوت کا تحفظ

222

آج 7 ستمبر ہماری ملکی تاریخ  کا ایک ایسا روشن دن ہے، جب 1974ء میں اسی روز پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں قادیانیوں کی حیثیت کا حتمی تعین ہوا اور متفقہ طور پر آئین میں ترمیم کرتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار  دیا گیا۔

سات ستمبر کا اہم دن صرف ارض پاک ہی کے لیے  نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے تاریخی اہمیت  کا حامل ہے کہ اس روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ ہوا اور آپ ﷺ کی ختم نبوت پر ڈاکا ڈالنےو الے قادیانیوں کو رسوائی اور ذلالت کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ تاقیامت وہ اپنے اس مذموم مقصد میں ناکام و نامراد ہی رہیں گے۔

پاکستانی پارلیمان جس کے پیچھے نہ صرف پوری پاکستانی قوم کھڑی تھی بلکہ اس مقصد کے پیچھے ایک طویل جدوجہد اور جانوں کے نذرانے بھی تھے، جس کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر تاریخ ساز فیصلہ کیا گیا جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے سجدہ شکر ادا کیا۔

ختم نبوت کا عقیدہ رکھنا اور اس کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ اور اس کی بنیادی ذمے داری ہے۔ یہ نہ صرف ہمارے ایمان کا تقاضا ہے بلکہ روزقیامت اللہ کے محبوبﷺ  کی شفاعت و محبت کا بھی ذریعہ بنے گا۔اس انتہائی اہم عقیدے ہی کی بنیاد پر ہمارا دین محفوظ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

امت مسلمہ کا ہمیشہ سے اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ کے آخری نبی ہیں  اور آپ ﷺ کے بعد کسی کی بھی جانب سے نبوت کا دعویٰ کفر کے سوا کچھ نہیں۔

خلیفہ اول اور نبی آخر الزماں کے رفیق حضرت ابوبکر صدیقؓ کی عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کے لیے عظیم قربانی بھی تاریخ بڑی شان کے ساتھ بیان کرتی ہے۔آپؓ اور صحابہ کرامؓ کے سامنے ختم نبوت کے عقیدے اور اس کے تحفظ کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا  ہے کہ نبوت کے مدعی مسیلمہ کذاب سے جو معرکہ ہوا اس میں 22 ہزار مرتدین قتل اور تقریباً 1200 صحابہ کرامؓ شہید ہوئے۔ ان صحابہ کرام میں سیکڑوں قراء اور حافظ قرآن بھی تھے۔ اس معرکے میں صحابہ کرام نے اپنی جان تک قربان کردی تاہم عقیدہ ختم نبوت پر کسی طور آنچ نہ آنے دی۔

19 ویں صدی کے آخر میں جہاں دیگر بہت سے فتنے سامنے آئے، وہیں خودساختہ نبوت کا ایک فتنہ قادیانیت کی صورت میں سامنے آیا، جس کا واحد مقصد مسلمانوں  اور دین اسلام کی بنیاد کو نقصان پہنچانا تھا۔ اس فتنے کو جن عناصر کی پشت پناہی حاصل تھی، وہ آج بھی دنیا سے اسلام اور مسلمانوں کے خاتمے کے خواب دیکھتے ہیں اور ماضی سے لے کر قیامت تک وہ اپنی اس خواہش میں نامراد ہی رہیں گے۔

مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات کے منظر عام پر آتے ہی علمائے کرام نے اس فتنے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور عملی طور پر سامنے آئے۔ امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ اپنے شاگردوں سے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور ردِ قادیانیت کے لیے کام کرنے کا عہد لیا کرتے تھے۔ آپ فرماتے تھے :جو شخص قیامت کے دن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دامن شفاعت سے وابستہ ہونا چاہتا ہے وہ قادیانیت سے ناموس رسالت کو بچائے۔

اسی طرح امیر شریعت سید عطا اﷲ شاہ بخاری ؒنے تحریک آزادی کے بعد عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے خود کو وقف کر دیا اور قید و بند کی صعوبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور پورے ملک میں بڑھاپے و بیماری کے باوجود جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے قادیانیت کے کفر کو بے نقاب کر کے نسل نو کے ایمان کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا۔

آج دنیا  اور کل آخرت میں سرخرو ہونے کے لیے عقیدۂ ختم نبوت ﷺ کے تحفّظ، نسل نو کے ایمان کی حفاظت کے لیے ہر ایک مسلمان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ختم نبوت کے عقیدے پر قرآن میں متعدد آیات مبارکہ موجود ہیں، جن سے عقیدۂ ختم نبوت بڑی صراحت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے۔کائنات کی ابتدا سے آج اور پھر تاقیامت اﷲ کے محبوب حضرت محمدﷺ ہی ہیں اور آپﷺ ہی خاتم النبیین ہیں۔خود سرکار دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں خاتم النبیین  ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

مسلمانوں نے ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے خلاف جنگ کی اور ان کو کافر قرار دے کر واصل جہنم کیا ہے۔ اﷲ پاک ہمیں حضور پاکﷺ کی سچی محبّت عطا فرمائے۔

قرآن  اور احادیث میں عقیدۂ ختم نبوت ﷺ

قرآن و سنت سے ثابت ہے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضرت محمدﷺ پر ختم کردیا گیا۔ آپﷺ کے بعد کسی شخص کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ قرآن پاک کی سورۃ احزاب آیت نمبر40 ہے، جس کا مفہوم ہے کہ:محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اﷲ کے رسول (ﷺ) ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہیں۔

پوری امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے۔ تمام مفسرین بھی اسی بات پر متفق ہیں کہ خاتم النبیین کے معنی یہی  ہیں کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

آپﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا:تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ  آپﷺ نے فرمایا:میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔

حضرت عائشہ صدیقہ آپ ﷺ کا ارشاد نقل کرتی ہیں کہ :میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد انبیا کی مساجد میں آخری مسجد ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا:میری اور مجھ سے پہلے انبیا کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا مگر اس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر اش اش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ اینٹ بھی کیوں نہ لگا دی گئی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میں وہی (کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔

7 ستمبر کو مسلمانان پاکستان یوم دفاع عقیدہِ ختم نبوت کے طور پر مناتے ہیں۔ اس روز ملک گیر سطح پر جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں، جن کا مقصد نسل نو کو عقیدہِ ختم نبوت اور اس کے دفاع کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے بارے میں آگاہی دینا ہوتا ہے۔