ناگاساکی واقعے کے بعد اسرائیل کی ڈھٹائی

330

ناگاساکی گزشتہ چند روز سے عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جس کی وجہ ناگاساکی کے میئر کا امریکی ایٹمی بمباری کی 79 ویں برسی کے موقع پر ہونے والی تقریب میں جاپان میں متعین اسرائیلی سفیر کو مدعو نہ کرنے کا فیصلہ تھا۔ ہمیشہ کی طرح اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے اس فیصلے کے خلاف امریکا، برطانیہ، اور دیگر ممالک سے تقریباً 1500 تنقیدی ردعمل موصول ہوئے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا قدم تھا جس کا مقصد ایک اہم تقریب کی وقار اور عظمت کو برقرار رکھنا تھا۔ میئر شیرو سوزوکی کا فیصلہ نہ صرف قابل ِ جواز ہے بلکہ قابل ِ تعریف بھی ہے، خاص طور پر ایسے جانبدار بین الاقوامی معاشرے کے سامنے جو اکثر غور و فکر کے بجائے محض ردعمل ظاہر کرتا ہے۔

متعصب ناقدین نے ناگاساکی کے فیصلے کو جلد ہی سیاسی قرار دے دیا ہے، حالانکہ میئر سوزوکی نے واضح کیا ہے کہ یہ فیصلہ امن اور ایٹمی بمباری کے متاثرین کے احترام کے لیے کیا گیا تھا اور اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ معصوم جانوں کے ضیاع کی یادگاری تقریب کو اسرائیل کے غزہ کے جاری تنازعے سے منسلک احتجاج یا تنازعات کی نذر نہ ہونے دیا جائے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جو امن کی روح کے عین مطابق کیا گیا۔

اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے کیے گئے ردعمل نہ صرف بے جا ہیں بلکہ منافقت پر مبنی ہیں۔ اسرائیل، جو غزہ کے عوام کے خلاف اپنی ظالمانہ کارروائیوں کے لیے جانا جاتا ہے، دعوت نامہ نہ ملنے پر ذلت کے احساس سے تلملا رہا ہے اور اس پر غیر معقول ردعمل ظاہر کر رہا ہے۔

اسرائیل کا یہ دہرا معیار ایک افسوسناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیل کا ردعمل، جو ذلت کے احساس سے بھرپور ہے، خود آگاہی اور حساسیت کی شدید کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ غزہ میں اپنی کارروائیوں پر توجہ دینے کے بجائے، اسرائیل نے امن اور احترام کی خواہش پر مبنی فیصلے کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا ہے جو اس کی ہٹ دھرمی کی زندہ مثال ہے۔

مزید برآں، مغربی ممالک، خاص طور پر وہ ممالک جو اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں، کا یہ ردعمل بھی انتہائی غیر مناسب ہے۔ یہ ممالک، جو اکثر انسانی حقوق پر دوسروں کو درس دیتے ہیں، ایک ایسے فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں جو امن تقریب کی حرمت کو برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ممالک کو اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کے بجائے اپنے رویے کو دیکھنا چاہیے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ جاپانی زبان میں زیادہ تر 2000 سے زیادہ فون کالز، ای میلز، اور آن لائن پیغامات ناگاساکی کے فیصلے کے حق میں تھے۔ یہ مقامی حمایت جاپانی عوام کے شعور اور فلسطینی عوام سے یکجہتی اور ہمدردی کی عکاسی کرتے ہیں۔ جاپانیوں نے اپنی باشعور قیادت کے فیصلے کی حمایت کی ہے جبکہ بیرون ملک سے کی جانے والی بیجا تنقید جاپانی عوام کے جذبات کو نظر انداز کرتی نظر آتی ہے۔

میئر سوزوکی کا موقف امن اور احترام کے اصولوں کو ترجیح دینے کے ایک بہادرانہ عمل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اسرائیل جیسے ممالک کے لیے وقت ہے کہ وہ کچھ خود احتسابی کریں۔ دشمنی کے ساتھ ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے، انہیں ناگاساکی کے فیصلے کی وجہ اور تناظر کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اسرائیلی سفیر کو مدعو نہ کرنے کا فیصلہ کسی کو خارج کرنے کے عمل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے، بلکہ اسے ایک ایسے واقعہ کی سالمیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے جس نے انسانی تاریخ میں ایک گہرے زخم کی یاد تازہ کی ہے۔ دنیا کو میئر سوزوکی کی جرأت اور مقصد کی وضاحت کی تعریف کرنی چاہیے، نہ کہ انہیں حق کے لیے کھڑے ہونے پر تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے۔