تحریک تحفظ ختم نبوت کی کامیابی کا جشن طلائی

321

آج سات ستمبر ہے… برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا ایک یاد گار دن… تحریک تحفظ ختم نبوت کا ایک تابناک باب… قادیانیت کے ناسور کے خلاف جدوجہد کا ایک روشن سنگ میل… ’’دو چار برس کی بات نہیں، یہ نصف صدی کا قصہ ہے‘‘… پورے پچاس برس قبل، آج ہی کے دن… سات ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے پر مہر تصدیق ثبت کی، اسلامیان پاکستان آج تحریک تحفظ ختم نبوت کی اس شاندار کامیابی کے پچاس برس مکمل ہونے پر دینی جوش و جذبے کے ساتھ جشن طلائی (گولڈن جوبلی) منا رہے ہیں… خالق کائنات کا یہ بھی ایک عجیب کرشمہ تھا کہ یہ عظیم کام ایک ایسے شخص… اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کے ہاتھوں انجام پایا جس نے 1970ء کے عام انتخابات میں قادیانی جماعت کی متفقہ اور بھر پور تائید و حمایت سے کامیابی حاصل کی تھی… بالکل اسی طرح جیسے یہی ذوالفقار علی بھٹو جو سوشلزم کا علمبردار اور سیکولرزم کا پروردہ تھا اور عوامی جلسوں میں کھلے بندوں، کسی اظہار ندامت کے بغیر اپنی شراب نوشی کا اعتراف ہی نہیں بلکہ اظہار تفاخر بھی کرتا تھا… 1977ء میں، جب انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر شروع ہونے والی تحریک، جو بعد ازاں تحریک نظام مصطفی قرار پائی… کے عروج کے دنوں میں اسی ذوالفقار علی بھٹو نے حالات کے دھارے کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے نہ صرف پاکستان میں شراب کے استعمال بلکہ خرید و فروخت پر بھی مکمل پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا … اس کے علاوہ اسلامی شعائر کے تحفظ کی خاطر ملک میں ہفتہ وار تعطیل اتوار کی بجائے جمعۃ المبارک کو کرنے اور اسی نوع کے کئی دیگر اعلانات بھی کئے… یہ الگ بات ہے کہ وہ عوام کا اعتماد کھو چکا تھا، چنانچہ اپنے طور پر نظام مصطفیؐ کے نفاذ کی جانب اس پیش قدمی کے باوجود اپنے اقتدار کی ڈوبتی کشتی کو بچانے میں کامیاب نہ ہو سکا…!

فتنۂ قادیانیت کے خلاف مسلمانان برصغیر کی جدوجہد کا آغاز اسی روز سے ہو گیا تھا جب اس فتنہ نے یہاں کے انگریز حکمرانوں کی سرپرستی میں جنم لیا تھا اور مرزا غلام احمد قادیانی نے مختلف پینترے بدلنے کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تھا… اس دعوے کے ساتھ ہی یہاں کے علماء کرام اور اہل فکر و نظر نے اس فتنہ کی بیخ کنی کے لیے کام شروع کر دیا تھا… خود شاعر مشرق، مصور پاکستان علامہ اقبالؒ بھی اس جہاد میں پیش پیش تھے چنانچہ انہوں نے 1936ء میں پنجاب مسلم لیگ کی کونسل میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کی تجویز منظور کرائی اور اسی تجویز پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ کے امیدواروں سے تحریری حلف نامہ بھی لیا کہ وہ انتخابات میں کامیابی کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے سے متعلق ان آئینی اداروں میں مہم چلائیں گے… مگر افسوس کہ ایک جانب تو علامہ اقبالؒ اور مسلم لیگی قیادت کا قادیانیوں کے بارے میں یہ واضح موقف تھا مگر قیام پاکستان کے بعد جو لوگ مسلم لیگ کے نام پر اقتدار پر قابض ہوئے انہوں نے اس فتنہ کی بیخ کنی کے بجائے باقاعدہ حکومتی طاقت سے اس کا تحفظ کیا… چنانچہ 1953ء میں جب عوامی سطح پر ایک زور دار تحریک قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے حق میں شروع ہوئی تو حکومت نے اس تحریک کو دبانے کے لیے سرکاری مشینری کا اندھا دھند استعمال کیا… اس تحریک کے ہزاروں کارکنوں اور بڑی تعداد میں علماء کرام کو گرفتار کر کے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا اور بے رحمی سے حکومتی اختیار اور اقتدار کو استعمال کرتے ہوئے اس تحریک کو دبا دیا گیا۔ اسی دور میں دور حاضر کے عظیم مفکر، جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے فتنہ قادیانیت اور اس کے سرغنہ غلام احمد قادیانی کے عقائد و افکار کا پردہ چاک کرنے والی جامع تحقیقی کتاب ’’قادیانی مسئلہ‘‘ شائع کی تو نہ صرف انہیں گرفتار کر لیا گیا بلکہ فوجی عدالت نے فوری اور سرسری سماعت کے بعد یہ کتاب لکھنے کے جرم میں انہیں سزائے موت بھی سنا دی۔ اسی موقع پر مولانا مودودیؒ سے جب سزا کے خلاف اپیل کے لیے کہا گیا تو انہوں نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’زندگی اور موت کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں‘ اگر اس کے ہاں میری موت کا وقت آ گیا ہے تو کوئی اس میں ایک لمحے کا اضافہ نہیں کر سکتا اور اگر وہاں میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو یہ حکمران الٹے بھی لٹک جائیں تو میرا بال بیکا نہیں کر سکتے…‘‘

تحریک ختم نبوت کا دوسرا اور فیصلہ کن مرحلہ 1974ء میں اس وقت شروع ہوا جب اسلامی جمعیت طلبہ نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ نے تفریحی دورے کے سفر کے دوران ربوہ سے گزرتے ہوئے ختم نبوت کے حق میں نعرے بلند کئے… یہ طلبہ دورے کی تکمیل پر واپسی کے سفر کے دوران جب ربوہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو مسلح قادیانی نوجوانوں نے ان پر حملہ کر دیا اور ان طلبہ کو بری طرح زدو کوب کیا جس سے اکثر مسلمان طلبہ شدید زخمی ہوئے… قادیانی نوجوانوں کی اس کھلی غنڈہ گردی کے خلاف شدید رد عمل پورے ملک میں دیکھنے میں آیا اور ایک نئی تحریک تحفظ ختم نبوت برپا ہوئی، اسلامی جمعیت طلبہ جس کا ہر اول دستہ تھی۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اس تحریک کو بھی حکومتی طاقت اور تشدد کے ذریعے دبانے کی پوری کوشش کی مگر جب کامیاب نہ ہو سکی تو معاملہ کو قومی اسمبلی میں زیر بحث لانے کا فیصلہ کیا گیا، جہاں قادیانی جماعت کے اس وقت کے سربراہ کو اپنا موقف تفصیل سے پیش کرنے کا پورا پورا موقع دیا گیا مگر وہ ایوان کے سامنے، جس میں خود ذوالفقار علی بھٹو بھی موجود تھے، خود کو مسلمان ثابت کرنے میں مکمل ناکام رہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں یہ اعتراف کیا کہ جو لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کا اقرار نہیں کرتے، قادیانی عقائد کے مطابق وہ مسلمان نہیں، گویا انہوں نے پورے ایوان کو بھٹو سمیت کافر قرار دے دیا… یوں تفصیلی بحث مباحثہ کے بعد قومی اسمبلی نے آئین میں ترمیم کی منظوری دی جس میں رسول اکرم حضرت محمدؐ کو آخری نبی نہ ماننے والوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا اور تحفظ ختم نبوت کی طویل جدوجہد کامیابی سے ہم کنار ہوئی مگر قادیانیوں نے قومی اسمبلی کے اس فیصلہ اور خود کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا چنانچہ انہوں نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں قادیانی اقلیت کے لیے مختص نشستوں پر نمائندے بھی نامزد نہیں کئے اور آئینی ترمیم کے دیگر پہلوئوں کی بھی مسلسل خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوے ہیں دوسری جانب دنیا کے سامنے مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر بین الاقوامی برادری کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں… ان کی ایسی ہی سرگرمیوں کی ایک جھلک گزشتہ دنوں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ایک متنازعہ فیصلے کی صورت میں اہل وطن نے دیکھی تاہم اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ علماء کرام اور مسلمانان پاکستان نے بروقت اس کا نوٹس لیا اور پوری قوم نے متحد ہو کر عدالت عظمیٰ کو اپنے متنازعہ فیصلہ پر نظر ثانی اور اس کی اصلاح پر مجبور کر دیا… اسلامیان پاکستان آئندہ بھی قادیانی اقلیت کی اسلام دشمن سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں گے اور ان کی سرکوبی کے لیے یکسو، متحد اور متفق ہو کر بروقت اقدام کریں گے…!!!