تاریخ کے پہلے شہید ختم نبوت سیدنا حبیب ابنزیدانصاری ؓ نے اس وقت کے طاغوت جھوٹے مدعی نبوت مسیلمۂ کذاب کے سامنے سرنڈر نہ کر کے جو تاریخ رقم کی تھی وہ جاری و ساری ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ تاقیامت جاری رہے گی ۔ تمام مکاتب فکر خصوصاًقافلۂ احرار و تحریک ختم نبوت کی مسلسل جد جہد اور شہدائے ختم نبوت کے مقدس خون کے صدقے آج سے50سال قبل(7ستمبر1974) پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو ملک کی ساتویں غیرمسلم اقلیت قرار دیا اس فیصلے کا عالم اسلام نے خیر مقدم کیا اور دنیا نے سکھ کا سانس لیا،قادیانیوں نے اس فیصلے کو نہ صرف تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ وہ عالمی اداروں میں اس کے خلاف اب تک مہم چلا رہے ہیں ، ہم آج کے دن دیکھتے ہیں اُس وقت کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اس بابت قوم سے کیا کہا اور پھر کیا ہوا ۔ 7ستمبر 1974کو جب یہ تاریخی فیصلہ ہو چکا تو پھر ایوان زیریں اور ایوان بالا کے مشترکہ اجلاس میںبھٹو مرحوم نے کم و بیش 27منٹ کی جو تقریر کی اس کا ایک اقتباس یہ ہے ۔
’’یہ ایک پرانا مسئلہ ہے۔ نوّے سال پرانا مسئلہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔ اس سے ہمارے معاشرے میں تلخیاں اور تفرقے پیدا ہوئے لیکن آج کے دن تک اس مسئلہ کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ ماضـی میں بھی پیدا ہوا تھا۔ ایک بار نہیں ، بلکہ کئی بار ، ہمیں بتایا گیا کہ ماضی میں اس مسئلہ پر جس طرح قابو پایا گیا تھا۔ اسی طرح اب کی بار بھی ویسے ہی اقدامات سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اس سے پہلے کیا کچھ کیا گیا، لیکن مجھے معلوم ہے کہ 1953ء میں کیا کیا گیا تھا۔ 1953ء میں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے وحشیانہ طور پر طاقت کا استعمال کیا گیا تھا جو اس مسئلہ کے حل کے لیے نہیں ، بلکہ اس مسئلہ کو دبا دینے کے لیے تھا کسی مسئلہ کو دبا دینے سے اس کا حل نہیں نکلتا ۔ اگر کچھ صاحبان عقل وفہم حکومت کو یہ مشورہ دیتے کہ عوام پر تشدد کر کے اس مسئلہ کو حل کیا جائے ، اور عوام کے جذبات اور ان کی خواہشات کو کچل دیا جائے ، تو شاید اس صورت میں ایک عارضی حل نکل آتا ، لیکن یہ مسئلہ کا صحیح اور درست حل نہ ہوتا ۔ مسئلہ دب تو جاتا ، اور پس منظر میں چلا جاتا ، لیکن یہ مسئلہ ختم نہ ہوتا ۔
بھٹواس تقریر میں آگے چل کر کہتے ہیں’’ کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو اس فیصلے سے خوش نہ ہوں ۔ ہم یہ توقع بھی نہیں کرسکتے کہ اس مسئلہ کے فیصلے سے تمام لوگ خوش ہو سکیں گے جو گذشتہ نوے سال سے حل نہیں ہو سکا ۔ اگر یہ مسئلہ آسان ہوتا اور ہر ایک کو خوش رکھنا ممکن ہوتا ،تو یہ مسئلہ بہت پہلے حل ہو گیا ہوتا ۔ لیکن یہ نہیں ہو سکا ۔ 1953ء میں بھی یہ ممکن نہیں ہو سکا ۔وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ 1953ء میں حل ہو چکا تھا ، وہ لوگ اصل صورت حال کا صحیح تجزیہ نہیں کر سکے ۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس فیصلے پر نہایت ناخوش ہوں گے ۔ اب میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں ان لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کروں ۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ یہ ان لوگوں کے طویل المیعاد مفاد کے حق میں ہے کہ یہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے ۔ آج یہ لوگ ناخوش ہوںگے ان کو یہ فیصلہ پسند نہ ہو گا ، ان کو یہ فیصلہ ناگوار ہو گا، لیکن حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اور مفروضہ کے طور پر اپنے آپ کو ان لوگوں میں شمار کرتے ہوئے، میں یہ کہوں گا کہ ان کو بھی اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ اس فیصلے سے یہ مسئلہ حل ہوا اور ان کوآئینی حقوق کی ضمانت حاصل ہو گئی ، مجھے یاد ہے کہ جب حزب مخالف سے مولانا شاہ احمد نورانی نے یہ تحریک پیش کی تو انھوں نے ان لوگوں کو مکمل تحفظ دینے کا ذکر کیا تھا جو اس فیصلے سے متاثر ہوں گے، ایوان اس یقین دہانی پر قائم ہے۔ یہ ہر پارٹی کا فرض ہے، حزب مخالف کا فرض ہے اور ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کی یکساں طور پر حفاظت کریں۔ اسلام کی تعلیم رواداری ہے۔ مسلمان رواداری پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اسلام نے فقط رواداری کی تبلیغ ہی نہیں کی بلکہ تمام تاریخ میں اسلامی معاشرے نے رواداری سے کام لیا ہے ۔ اسلامی معاشرے نے اس تیرہ و تاریک زمانے میں یہودیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا ، جب کہ عیسائیت ان پر یورپ میں ظلم کر رہی تھی اور یہودیوں نے سلطنت عثمانیہ میں آکر پناہ لی تھی ۔ اگر یہودی دوسرے حکمراں معاشرے سے بچ کر عربوں اور ترکوں کے اسلامی معاشرے میں پناہ لے سکتے تھے ، تو پھر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری مملکت اسلامی مملکت ہے ، ہم مسلمان ہیں ، ہم پاکستانی ہیں ، اور یہ ہمارا مقدس فرض ہے کہ ہم تمام فرقوں ، تمام لوگوں ، اور پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں طور پر تحفظ دیں ۔
جناب اسپیکر ! ان الفاظ کے ساتھ میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں ۔ آپ کا شکریہ‘‘
بعد ازاں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان کے سر براہ حضرت مولانا خواجہ خان محمدرحمۃ اللہ کی قیادت میں تحریک چلی اور 26اپریل 1984ء کو صدر پاکستان محمد ضیا ء الحق مرحوم نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کر کے قادیانیوں کو شعائر اسلام اور اسلامی علامات و اصطلاحات استعمال کرنے سے روک دیا ،یہ آرڈیننس بعد میں تعزیرات پاکستان کا حصہ بن گیا۔جن دنوں بھٹو مرحوم راولپنڈی جیل کی کال کوٹھڑی میں قید تھے ،تب کرنل رفیع الدین وہاں ڈیو ٹی آفیسر کے طور پر فرائض انجا م دے رہے تھے بعد ازاں انہوں نے ان ایام کی سر گزشت ’’بھٹو کے آخری 323دن‘‘ کے نا م سے لکھی ۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں : ’’احمدیہ مسئلہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا ۔ایک دفعہ کہنے لگے : رفیع ! یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہو دیوں کو امریکہ میں حاصل ہے ۔یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔ایک بار انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دے دیا ہے۔ اس میں میرا قصور ہے ؟ ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع الدین ! کیا احمدی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میر ی موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بد دعا کا نتیجہ ہے کہ میں کال کو ٹھری میں پڑا ہوں؟ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بھٔی اگران کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہرا تے ہیں تو کوئی بات نہیں ۔پھر کہنے لگے میں تو بڑا گناہ گار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گنا ہوں کی تلافی کر جائے اور اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردے۔
بھٹو صاحب کی باتوں سے میں اندازہ لگا یا کرتا تھا کہ شاید انہیں گناہ وغیرہ کا کوئی خاص احساس نہ تھا لیکن اس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اس کے بر عکس ہے ۔قرار داد پاکستان کے محرک کا سہرا غدار پاکستان موسیو ظفراللہ خان سابق وزیر خارجہ کے سر باندھنے کی خطرناک سازش ہو چکی ہے حکومت پاکستان کے 4اگست 2021کو اپنے فیس بک اورٹوئٹر کے آفیشیل اکاؤنٹ پر 14اگست کے حوالے سے ایک اشتہار دیا تھا جس میںموسیو ظفراللہ خان کو نہ صرف خراج عقیدت پیش کیاگیا بلکہ قرارداد پاکستان کا محرک بھی قرار دیا گیا جو تحریکی اعتبار سے نہ صرف غلط ہے بلکہ اسلامیان پاکستان کے عقیدے پر بھی حملہ ہے۔ اس مرتبہ بھی اگست کے مہینہ میں وزیر خزانہ جناب مفتاح اسماعیل نے جو کچھ کہا سب کے سامنے ہے اور اس سے پہلے سابق وزیر اعظم جناب عمران خان نیازی نے جو ملعون سلمان رشدی کے قتل پر اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے مذمتی بیان دیا یہ سب کچھ قادیانیت نوازی اور ناموس رسالتﷺ پر حملہ آور ہونے والے گستاخوں کو سپورٹ کرنے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے۔ اس قسم کی صورتحال کے پیش نظر امسال7ستمبر2024کو یوم تحفظ ختم نبوت زیادہ اہتمام سے منایا جا رہا ہے۔اسی سلسلہ میں ایوان احرار نیو مسلم ٹاؤن لاہور میں مجلس احرار اسلام لاہور کے زیر اہتمام کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ رہنماء شرکت و خطاب فرمائیں گے۔ تحریک ختم نبوت کے حوالے سے کام کرنے والے بزرگوں ودوستوں اور کارکنوں کو 7ستمبر 1974کودونوں مشترکہ ایوانوں میں بھٹو کی اس تقریر کو تفصیل سے پڑھ لینا چاہیے کہ کام کرنے والوں کے لیے یہ ایک بہترین گایڈ لائن بھی ہے۔
علاوہ ازیں قادیانیوں کو ہم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ یا تو اسلام قبول کرلیں یا اپنی متعینہ دینی و آئینی حیثیت کے دائرے میں غیر مسلم اقلیت بن کر رہیں۔ پارلیمنٹ سے لے کراعلی عدالتوں تک اور پھر بین الاقوامی فورمز تک وہ مسلسل شکست سے دو چار ہو چکے ہیں ۔ملک کی اسمبلیوں میں تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت جیسے قوانین کی صدائیں بلند ہورہی ہیں جس کے نتیجے میں ہر سطح پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کے ساتھ ’’خاتم النبیین ‘‘ لکھنا ،پڑھنا لازم قرار دیا جا چکا ہے، برطانوی پارلیمنٹ کے تقریباً 40ارکان کی طرف سے پاکستان کے خلاف اور قادیانیوں کے حق میں یک طرفہ انکوائری رپورٹ طشت ازبام ہو چکی ہے اور کوئی ملکی اور بین الاقوامی ہتھ کنڈہ تحریک ختم نبوت کو سپوتاز نہ کر سکے گا۔2019 میں مبارک ثانی نامی ایک مقدمہ درج ہوا جس میں ملزم قادیانی مطبوعہ تفسیر تقسیم کر رہا تھا جس پر کیس سپریم کورٹ گیا جہاں ججز نے چار دیواری کے اندر اقلیتوں کو اپنی مذہبی سرگرمیوں پر بندش ختم کر دی گئی جس پر نظر ثانی کی درخواست دی گئی،علاوہ ازیں اس پر تمام مذہبی جماعتوں بشمول مجلس احرار اسلام نے دو سے تین دفعہ بھر پور احتجاج کیا جس کا اثر یہ ہوا کہ ایک قاضی فائز عیسی چیف جسٹس اف پاکستان نے اس نظر ثانی اپیل پر تمام جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں کو سپریم کورٹ بلا کر بھرپور بحث کی 19اگست کو حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی ، حضرت مولانا فضل الرحمن کو قانونی اعتبار سے راؤ سعید انور بھٹہ ایڈووکیٹ نے بریفنگ دی اور دیگر کے دلائل کے بعد مبارک ثانی کیس کے پیراگراف 7 اور پیراگراف 42 کو حذف کرنے کا فیصلہ کر دیا جس میں قادیانیوں کی چار دیواری میں بھی غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی، الحمداللہ تمام مذہبی جماعتوں اور رہنماؤں نے 23 اگست کو یوم تشکر منایا، 7 ستمبر 1974 میں قادیانیوں کو آئینی اور قانونی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر اس ,7ستمبر2024 کو 50 سال مکمل ہونے پر تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی جماعت مجلس احرار اسلام نے گولڈن جوبلی منانے کا فیصلہ کیا اور مجلس احرار اسلام کے مرکزی سرکلر کے مطابق ستمبر کا پورا مہینہ گولڈن جوبلی یوم ختم نبوت کے نام پر ختم نبوت کانفرنسز منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو کہ مختلف شہروں اور قصبوں میں بھرپور انداز میں کانفرنس منعقد کی جا رہی ہیںاللہ کا شکر ہے کہ جس کام کو 40سال قبل راقم الحروف نے مجلس احرار اسلام پاکستان کے پلیٹ فارم سے شروع کیا تھا آج وہ دن(7ستمبر) پوری دنیا خصوصاً پاکستان میں جوش و خروش کے ساتھ منایا جانے لگا ہے جو بہت ہی خوش آئند ہے۔آج 7ستمبر کا دن ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ ہم عہد کریں کہ نفاذ اسلام ۔عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور وطن عزیز کے دفاع کے لیے تمام وسائل برؤے کار لائیں گے۔انشاء اللہ تعالیٰ ۔