پاکستان میں برقی گاڑیوں کا سیلاب آنے والا ہے؟

249

کیا پاکستان میں بہت جلد قدم قدم پر برقی گاڑیاں دکھائی دیں گی؟یہ سوال بہت سوں کے ذہنوں میں گردش کرتا رہا ہے۔ دنیا بھر میں برقی گاڑیاں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ خام تیل سے تیار کیے جانے والے ایندھن (پیٹرول، ڈیزل، ایل پی جی، ایل این جی اور سی این جی) سے چلنے والی گاڑیوں پر اب برقی گاڑیوں کو ترجیح دی جارہی ہے۔ ماحول دوست کے ناطے یہ گاڑیاں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔

پاکستان میں برقی گاڑیوں کی فروخت شروع ہوچکی ہے۔ کئی ادارے اس حوالے سے غیر معمولی طور پر متحرک ہیں۔ امریکی کھرب پتی سرمایہ کار وارن بفیٹ کے “دستِ شفقت” کے تحت کام کرنے والے چینی ادارے بائے یور ڈریم (بی وائے ڈی) نے پاکستان میں بہت بڑے پیمانے پر اپنی گاڑیوں کی مارکیٹنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے سے انٹرویو میں بی وائے ڈی پاکستان کے ترجمان اور چینی ادارے سے اشتراکِ عمل کرنے والے ادارے (آٹو میکر) میگا موٹرز کے مالک ادارے حب پاور کے سی ای او کامران کمال نے کہا کہ پاکستان میں برقی گاڑیوں کی مارکیٹ پنپ رہی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ 2030 تک پاکستان میں فروخت ہونے والی گاڑیوں میں سے نصف برقی ہوں گی۔ ملک میں ایندھن کا بحران پریشان کن شکل اختیار کر رہا ہے۔ ایسے میں لوگ برقی گاڑیوں کی طرف مُڑ رہے ہیں۔

اس وقت سب سے بڑا مسئلہ صرف یہ ہے کہ برقی گاڑیوں کی کے لیے چارجنگ اسٹیشن کس طور قائم کیے جائیں گے۔ بی وائے ڈی نے ملک کی دو بڑی آئل کمپنیوں سے خصوصی معاہدہ کیا ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں 20 سے 30 چارجنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں گے۔ اس سے اندازہ ہوسکے گا کہ ملک میں برقی گاڑیوں کی صنعت کتنی تیزی سے پنپ سکے گی اور یہ گاڑیاں اپنی مقبولیت کس طور برقرار رکھ پائیں گی۔

پاکستان میں روایتی طور پر چینی برانڈز ٹویوٹا، سوزوکی اور ہونڈا انتہائی مقبول رہے ہیں۔ چند برسوں کے دوران جنوبی کوریا کے برانڈز کیا اور ہیونڈائی بھی پاکستانی مارکیٹ میں اپنے لیے معقول شیئر یقینی بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ اب بی وائے ڈی پاکستان پورے طمطراق کے ساتھ آنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ اور معاملہ صرف گاڑیوں کی فروخت تک محدود نہیں رہے گا، بی وائے ڈی پاکستان یہاں ایک مینوفیکچرنگ پلانٹ بھی لگانا چاہتا ہے کیونکہ تیار شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی بہت زیادہ ہے۔ زیادہ قیمت کی صورت میں مسابقت ممکن نہ رہے گی۔ مکمل طور پر چین میں اسمبل کی جانے والی گاڑیاں صرف ابتدائی مرحلے میں فروخت کی جائیں گی۔ دھیرے دھیرے پاکستان میں گاڑیاں اسمبلی کی جائیں گی اور پھر بنائی جائیں گی۔ یوں بی وائے ڈی پاکستان کے لیے ڈھنگ سے مسابقت ممکن ہو جائے گی۔

عارف حبیب لمٹیڈ سے تعلق رکھنے والے آٹو سیکٹر کے تجزیہ کار محمد ابرار پولانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بنیادی ڈھانچا مضبوط ہو تو 2030 تک یہاں فروخت ہونے والی گاڑیوں میں سے بیشتر برقی ہوں گی۔ اس وقت چارجنگ اسٹیشنز کی دستیابی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بنیادی ڈھانچا معیاری ہو تو پاکستان میں برقی گاڑیوں کی مقبولیت تیزی سے بڑھے گی اور 2030 تک یہاں فروخت ہونے والی گاڑیوں میں 50 فیصد تک برقی ہوسکتی ہیں۔