مدینہ کی مرکزی مارکیٹ

214

آپؐ نے وسط مدینہ میں ایک مرکزی مارکیٹ بنوائی، جسے سوق المدینہ کہا جاتا ہے۔ اس وقت مدینے کی مشہور اور بڑی مارکیٹ قینقاع تھی جو یہودیوں کے علاقے میں تھی۔ وہاں وہ گاہکوں کا استحصال کرتے اور ان کی عورتوں کے ساتھ چھیڑخانی اور بدتمیزی بھی کرتے۔ اسی وجہ سے وہ جلاوطن بھی کیے گئے۔ رسولِ پاکؐ نے اس کے مقابلے میں مدینے کی مرکزی جگہ پر مسجد نبویؐ اور بقیع کے نزدیک ’سوق المدینہ‘ بازار بنوایا۔ اس زمانے میں قینقاع کی مارکیٹ کے علاوہ چھوٹی چھوٹی اور بھی کئی مارکیٹ تھیں، مثلاً زبالہ مارکیٹ، جسر مارکیٹ، صفاجت مارکیٹ وغیرہ۔ مگر رسولِ پاکؐ نے بازارِ مدینہ کو سپرمارکیٹ کی حیثیت دی، جہاں ضرورت اور تجارت کی ساری چیزیں مہیا ہوں۔ رسول پاکؐ نے اس سپرمارکیٹ کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے قینقاع کے بازار کے ساتھ متعدد مقامات کا معائنہ فرمایا اور بالآخر مدینہ بازار کے محلِ وقوع کا تعیین فرمایا۔

سیدنا عطا بن یسارؒ کہتے ہیں کہ رسولؐ نے مدینہ منورہ کے لیے مارکیٹ بنانے کا ارادہ فرمایا تو پہلے قینقاع کے بازار تشریف لے گئے، پھر سوق المدینہ کی جگہ آئے، اور آپؐ نے پائوں سے اشارہ فرمایا کہ یہ تمھاری مارکیٹ ہوگی۔(وفاء الوفاء، ج1، ص 539)

سیدنا عباس بن سہیلؓ کی روایت کے مطابق رسولؐ قبیلہ بنی ساعدہ تشریف لائے اور فرمایا: میں تمھارے پاس ایک ضرورت سے رْکا ہوں۔ تم لوگ اپنے قبرستان کی جگہ مجھے دے دو، تاکہ میں وہاں مارکیٹ بنائوں۔ بعض لوگوں نے اپنے حصے کی زمین دے دی اور بعض نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ یہاں ہماری قبریں ہیں اور ہماری عورتوں کے نکلنے کی جگہ ہے، مگر بعد میں باہم گفت و شنید سے وہ جگہ نبیؐ کے حوالے کر دی گئی اور آپؐ نے وہاں مارکیٹ بنادی۔ (ایضاً، ص 540)

نبیؐ نے اس مارکیٹ کی مرکزیت، وسعت اور عوامیت کو برقرار رکھنے کے لیے فرمایا: یہ تمھارا بازار ہے، نہ تو اس کو کم کرو اور نہ اس میں ٹیکس لگائو۔ (ایضاً)
اس حکم نامے کی حکمت یہ تھی کہ اگر بازار کی جگہ تنگ ہوگی یا اس میں خرید وفروخت پر ٹیکس لگے گا تو بیوپاریوں کی کثرت نہ ہوگی، لہٰذا ان دونوں باتوں سے گریز کیا جائے۔ رسولؐ نے اس مارکیٹ میں خرید وفروخت کرنے کی بڑی حوصلہ افزائی فرمائی۔

آپؐ نے فرمایا: ہمارے بازار میں سامان لانے والا مجاہد فی سبیل اللہ کے مانند ہے اور بازار میں سامان روکنے والا اللہ کی کتاب میں سرکشی کرنے والے کے مانند ہے۔ (ایضاً، ص 546)
آپؐ نے مزید فرمایا: سامان روکنے والا مجرم ہے۔ (ترمذی، کتاب البیوع)

مدینہ کی مارکیٹ کی وسعت اور مرکزیت بعد میں بھی برقرار رہی۔ سیدنا عمرؓ کے عہد میں ایک لوہار نے اس مارکیٹ میں ایک بھٹی لگالی، تو سیدنا عمرؓ نے اسے منہدم کردیا اور فرمایا کہ تم رسولؐ کی مارکیٹ کا دائرہ تنگ کر رہے ہو۔ (وفاء الوفاء، ج1، ص 541)

مقامی منتظمین میں بازار کے منتظم کا ذکر بھی ملتا ہے جو خاص اہمیت کا حامل ہے۔ شہر مدینہ اور دوسرے بازاروں میں حضورؐ کا اقتدار و اختیار بہ طور سربراہِ مملکت قائم تھا۔ تاہم آپؐ نے مدینہ کے لیے ایک مخصوص منتظمِ بازار کا تقرر کیا تھا، اور وہ سیدنا عمر فاروقؓ تھے۔ فتح مکہ کے فوراً بعد بنواْمیہ کے خاندان سعیدی کے ایک فرد سیدنا سعید بن سعید اْموی کو مکہ کے بازار کا منتظم مقرر کیا گیا تھا۔ سیدنا عمرؓ کی مثال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ منتظم مستقل ہوتے تھے اور ان کو اس خدمت کا معاوضہ بھی ملتا تھا۔ (الکتانی، التراتیب الادری)