دعا: حاصلِ دین

333

اصل میں دعا مانگنا حاصل دین ہے لیکن یہ مانگنا دو طرح کا ہوتا ہے ایک محض زبان سے مانگنا یعنی غیر شعوری طور پر کلمات کا زبان سے ادا کردینا اور ان کی رٹ لگانا اور دوسرا دل سے مانگنا یعنی زبان سے جو الفاظ دعا ادا ہوں وہ دل کی گہرائیوں سے نکلیں، اس حال میں کہ آنکھیں اشکبار ہوں۔ اگر دعا اس درجے کی نہیں تو کم سے کم درجہ دعا یہ ہے کہ پلکیں بھیگ جائیں اور کچھ لمحات ہی کے لیے سہی مگر آواز گلو گیر ہوجائے بلکہ قرآن کے مطابق دعا میں عاجزی وفروتنی کی کیفیت ہو اور آواز پست ہو، اس سلسلے میں قرآن کی یہ آیت انتہائی قابل غور ہے۔
’’اپنے رب کو پکارو گڑ گڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو۔ اور اس کو پکارو خوف اور اْمید کے ساتھ یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے‘‘۔ (الاعراف: 55-56)

ان آیات میں اللہ کے حضور گڑگڑانے، چپکے چپکے اور خوف وامید کے ساتھ دعا مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو خلوص اور دل کی گہرائیوں سے پکارا جائے اور کسی طرح کی ریا اور نمائش کا شائبہ نہ ہو۔ چنانچہ ان آیات کی تفسیر میں سید قطب شہیدؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ ہدایت نفسیاتی اعتبار سے نہایت موزوں وقت پر دی گئی ہے، حکم ہوتا ہے کہ اپنے رب کو عاجزی وفروتنی کے ساتھ اور آہستہ آہستہ پکارو، چیخ چیخ کر اور شور مچا کر نہیں، اس لیے کہ اللہ کی جلالت شان اور بندے اور اس کے آقا کے بیچ قریبی تعلق کے ساتھ انسب طریقہ یہی ہے کہ اس کے آگے چپکے چپکے آہ وزاری کی جائے… اللہ کی جلالت شان اور اس کی قربت کا یہی وہ ایمانی احساس ہے جسے قرآن یہاں راسخ کرتا اور دعا کے وقت اس کی عملی شکل وہیئت سامنے لانا چاہتا ہے۔ اس لیے جو شخص عملاً خدا کی جلالت شان کا احساس کرے گا وہ دعا وپکار کے وقت چیخنے چلانے سے شرمائے گا اور جو شخص واقعی خدا کا قرب محسوس کرے گا، وہ اس ہنگامہ خیزی کی کوئی وجہ نہیں پائے گا‘‘۔ (تفسیر فی ظلال القرآن، ج5 ص: 148، مترجم مسیح الزمان فلاحی وندوی)

دعا میں غلو بھی ایک سنگین معاملہ ہے۔ آج کل اجتماعی طور پر جو دعائیں مانگی جاتی ہیں ان میں اکثر حد سے تجاوز ہوتا ہے ہمارے پیشہ ور واعظین اور بعض علما جو دعائیں اجتماعی طور پر مانگتے ہیں ان میں سخت غلو آمیزی ہوتی ہے۔ اور طبیعت کو اکتا دینے والی دعائیں ہوتی ہیں۔ بسا اوقات یہ لوگ دعا کرتے وقت بیچ بیچ میں وضاحت کے طور پر کچھ باتیں بھی کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے دعا میںکافی طوالت پیدا ہوجاتی ہے لوگ آمین کہنے کے منتظر ہوتے ہیں اور اکتاہٹ کی وجہ سے کچھ لوگ اپنی داڑھی میں انگلیاں ڈال کر خلال کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح یہ طویل دعائیں بے اثر ہوجاتی ہیں۔ جب دعا کرتے وقت قلب وذہن حاضر نہ ہوں تو دعا کی قبولیت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ دعا وہی قبولیت کے درجے کو پہنچتی ہے جو خشوع وخضوع، چپکے چپکے اور آہ وزاری کے ساتھ مانگی جائے۔ پھر دیکھیں اس طرح کی دعاؤں کے ثمرات کیسے سامنے آتے ہیں۔ اور یہ بھی جانیں کہ کس طرح دعاؤں کی قبولیت کا یقین پیدا ہوجاتا ہے۔