افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

380

آپ ﷺ کا مالی ایثار
آپؐ کا اوّلین وصف وہ ایثار تھا، جو آپؐ نے اِس کارِ عظیم کے لیے کیا۔ آغازِ نبوت کے وقت آپؐ ایک نہایت کامیاب اور خوش حال تاجر تھے۔ ایک طرف سیدہ خدیجہؓ کا مال تھا جو قریش کے دوسرے تاجروں کے مجموعی مال سے کم نہ تھا۔ دوسری طرف آپؐ کی ذہانت و فراست اور حسنِ تدبیر اور راست بازی کی ساکھ تھی، جس کا مقابلہ کوئی دوسرا نہ کرسکتا تھا۔ یہ دونوں چیزیں جس کاروبار میں یک جا جمع ہوگئی ہوں، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کیسی زبردست ترقی کر رہا ہوگا۔ لیکن نبوت سے پہلے اس مال کو نبیؐ اور آپؐ کی شریکِ حیاتؓ نے محض اپنے عیش و آرام کے لیے مخصوص نہیں کر رکھا تھا، بلکہ نہایت دریا دلی کے ساتھ آپؐ اسے حاجت مندوں کی مدد، بے کسوں کی دست گیری اور مسافروں کی مہمان نوازی پر خرچ کرتے رہے تھے اور ہر کارِ خیر میں آپؐ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اِس لیے آغازِ نبوت میں کوئی بہت بڑا اندوختہ آپؐ کے پاس نہ تھا۔
٭…٭…٭
پھر جب فرائض نبوت کا بار آپؐ پر ڈالا گیا تو رفتہ رفتہ آپؐ نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لگا دیا، اور آپؐ کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ تبلیغِ دین کے ساتھ اپنی تجارت بھی چلا سکیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جب آپؐ طائف تشریف لے گئے تو آپؐ کو پیدل ہی جانا پڑا، کوئی سواری آپؐ کومیسر نہ تھی۔ ہجرت کی تو اس کے سارے مصارف سیدنا ابوبکرؓ نے برداشت کیے، حتی کہ اہل و عیال کو مدینے بلانے کے لیے بھی آپؐ کو 500 درہم جنابِ ابوبکر صدیقؓ سے لینے پڑے۔ آپؐ کا دست مبارک درہم و دینار سے بالکل خالی تھا۔
٭…٭…٭
ظاہر ہے کہ جب ایک دعوت کا پیش کرنے والا خود اْس دعوت کے کام پر اپنے ذاتی مفاد کو اس طرح قر بان کر رہا ہو، تو ہر دیکھنے والا اس بات کا قائل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں بالکل مخلص اور بے غرض ہے، حتی کہ دشمن اور مخالف تک زبانوں سے خواہ کچھ ہی کہتے رہیں، اپنے دلوں میں یہ مان جاتے ہیں کہ اِس دعوت کے ساتھ اْس کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ اور جو لوگ اس کی دعوت کو قبول کرکے اس کے ساتھ آتے ہیں، ان کے لیے ان کے رہنما کی مثال ایسی سبق آموز ہوتی ہے کہ وہ بھی حق کو محض حق ہونے کی بنا پر مانتے ہیں، کسی ذاتی غرض کا لوث ان کے ایمان کے ساتھ لگا ہوا نہیں ہوتا، اور ایثار و قربانی میں بھی وہ اپنے ہادی و رہبر کی پیروی کرتے ہیں۔ (سیرتِ سرورِ عالمؐ)