سادگی اور معاشرتی مساوات

242

نبی کریمؐ کی ذات بابرکات نے سادگی کے سلسلے میں بھی اپنی امت کے لیے بہترین نمونۂ عمل چھوڑا ہے۔ آپؐ نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی اور فقر وفاقے کی حالت میں نہایت صبر وشکر سے اپنے فرائض منصبی ادا کیے، باوجود اس کے کہ آپؐ کو تمام سہولتیں میسر آسکتی تھیں۔ یوں آپؐ کا فقر اختیاری تھا۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں:
’’رسولؐ اور آپؐ کے گھر والے کئی کئی رات خالی پیٹ سوتے تھے، گھر میں رات کو کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اور ان لوگوں کی خوراک اکثر جو کی روٹی ہوتی تھی‘‘۔ (ترمذی)
سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران وفات تک کبھی دو وقت سیر ہوکر روٹی نہیں کھائی۔ (الشفا، ج1، ص 28)
اسی طرح آپؐ کا جوڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا گیا، کیوںکہ آپؐ کا دوسرا جوڑا ہوتا ہی نہ تھا جو تہہ کرکے رکھا جاتا۔ (ایضاً)

آپؐ نے معاشرتی اْونچ نیچ ختم کرنے پر بھی زور دیا ہے، اور مساوات واعتدال کا درس دیا ہے۔ جاہ ومال کی غیر ضروری نمایش کا واحد مقصد اپنی برتری کا اظہار ہوتا ہے۔ اس قسم کی منفی سوچ معاشرے کی وحدت اور اجتماعیت کو ختم کرکے اتحاد واتفاق پر مبنی معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لیے آپؐ نے آرایش پر تو پابندی عائد نہیں کی، لیکن نمایش کو قطعاً ممنوع قرار دیا ہے تاکہ معاشرتی وقار نمایش پسندوں کا شکار نہ ہوسکے۔ چناںچہ عبادت وریاضت، کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے اور رہنے سہنے سے لے کر لباس ومکان تک ہر مقام پر آپؐ کے ارشادات اعتدال کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہر معاملے میں اعتدال ومیانہ روی کو اختیار کرلیا جائے تو معاشرتی وحدت اور مساوات خود بہ خود قائم ہوسکتی ہے۔

انسا ن نمایش کی ابتدا عموماً اپنے لباس سے کرتا ہے۔ آپؐ نے اس بارے میں اعتدال پر مبنی ہدایات فرمائیں۔ آپؐ نے جہاں ایک طرف غربا وفقرا کو ان کے لباس سے قطعِ نظر ان کے باطنی حالات کے پیش نظر قبولیت کی سند عطا فرمائی، وہیں مال دار افراد کو بھی حیثیت کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حکم دیا، تاکہ افراط وتفریط کے مابین توازن قائم ہو سکے اور اعتدال کا قیام عمل میں آسکے۔ چناںچہ آپؐ نے فرمایا: ’’کتنے ہی پراگندا حال چیتھڑوں میں ملبوس انسان ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرتے ہیں‘‘۔ (ترمذی)

آپؐ نے خود کس حالت میں زندگی بسر کی؟ سیدہ عائشہؓ کی گواہی ملاحظہ ہو۔ سیدنا ابو دردا اور سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے پیوند لگی ہوئی چادر اور ایک یمن کی بنی ہوئی لنگی پیش کی، اور خدا کی قسم کھا کر کہا کہ اللہ کے رسولؐ نے انھی دوکپڑوں میں اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کی تھی۔ (بخاری، ابن ماجہ)
دوسری جانب آپؐ نے مال دار افراد کو تلقین کی: ’’اگر کوئی شخص خوش حال ہے تو کیا حرج ہے کہ اگر وہ کام کاج کے دو کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کے لیے بھی دو کپڑے رکھے‘‘۔ (ابوداؤد)
اسی طرح ایک شخص کو میلے کچلے لباس میں دیکھا تو فرمایا کہ اس سے اتنا نہیں ہوتا کہ کپڑے دھولیا کرے۔ (ابوداؤد)

ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے بدن پر پھٹا پرانا لباس تھا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمھارے پاس مال ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: کس قسم کا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے ہر قسم کے مال سے نواز رکھا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جب اللہ نے تجھے مال دے رکھا ہے تو اللہ کی نعمت اور سخاوت کا اثر بھی ظاہر کر‘‘۔ (ابوداؤد)

تاہم، اسلام نے خوش پوشاکی کی حد سے گزر کر اسراف کی حدود میں داخل ہوجانے والی آرایش کی سختی سے ممانعت کی ہے جو دراصل نمایش اور دکھلاوے کی خاطر کی جاتی ہے، کیوںکہ یہ راہِ اعتدال سے ہٹ کر ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’جس نے دنیا میں شہرت کا لباس زیب تن کیا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا اور اس میں آگ بھڑکائے گا‘‘۔ (ابن ماجہ)

زیورات خواتین کی فطری خواہش ہے۔ آپؐ نے اس فطری تقاضے پر پابندی عائد نہیں کی، البتہ افراط سے وہاں بھی منع فرمایا۔ سیدنا حذیفہؓ کی بہن سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’اے عورتو! کیا زیور بنانے کے لیے تمھارے لیے چاندی کافی نہیں ہے؟ خبر دار! جو عورت بھی سونے کا زیور بنائے گی اور اس کے ذریعے زینت کا اظہار کرے گی اسے اسی زیور سے عذاب دیا جائے گا‘‘۔(ابوداؤد)
یہ وعید ان عورتوں کے لیے ہے جو زیورات کی دیوانی ہوتی ہیں اور جو ر نگ و نْور کے سیلاب میں کھو کر فرائض اور حقوق سے غافل ہوجاتی ہیں۔
مالدار حضرات کا سب سے زیادہ زور تعمیرات میں صرف ہوتا ہے، اور اس موقع پرعموماً حد اعتدال کو برقرار نہیں ر کھا جاتا۔ اس کا ایک مقصد نمایش کے علاوہ عیش کو شی اور آرام طلبی ہوتا ہے۔ آپؐ نے اس پہلو کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا۔ سیدنا معاذ بن جبلؓ کو یمن کی جانب گورنر بناکر روانہ فرمایا تو یہ نصیحت بھی کی: ’’عیش کوشی سے دور رہنا، کیونکہ اللہ کے بندے آرام طلب نہیں ہوتے‘‘۔ (احمد)
یہی وجہ تھی کہ آپؐ نے سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا حرام فرمادیا اور مردوں کے لیے حریر وریشم کے استعمال کو ممنوع قرار دیا۔

اس پوری بحث کو ایک حدیث میں یوں مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میری امت میں ایسے لوگ آئیں گے جو رنگ برنگ کے کھانے کھائیں گے، انواع واقسام کے مشروبات استعمال کریں گے، اور طرح طرح کے لباس زیب تن کریں گے، اور منہ پھاڑ پھاڑ کر باتیں بنائیں گے۔ یہی لوگ میری امت کے بدترین افراد ہوں گے‘‘۔ (المعجم الکبیر)

خود آپؐ نے عملی طور پر اسلامی حکومت کے قیام کے بعد مساوات کا وہ عظیم الشان نمونہ پیش فرمایا کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے آج بھی قاصر ہے۔ آپؐ کے اور صحابہ کرامؓ کے مابین لباس کے اعتبار سے بھی کوئی فرق نہ تھا۔ اسی طرح آپؐ کی نشست بھی ایسی عام اور کسی امتیاز کے بغیر ہوتی تھی کہ باہر سے آنے والے شخص کو آپؐ کے بارے میں پوچھنا پڑتا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے بیٹھنے کے لیے ایک چبوترا بنانا چاہا تو آپؐ نے اس کو بھی پسند نہ فرمایا۔