جب سے جنرل عاصم منیر فوج کے سربراہ بنے ہیں فوج کی اعلیٰ قیادت اپنے بیانات کے ذریعے یہ تاثر پیدا کررہی ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت قوم اور فوج کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ جنرل عاصم منیر اس سلسلے میں سوشل میڈیا کے ’’فتنے‘‘ اور اس سلسلے میں فوجی قیادت کی ’’ذمے داری‘‘ کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ تاہم تاریخی طور پر یہ دیکھا جائے تو اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ جرنیل اور فوج کی اعلیٰ قیادت ہے جس نے ہر دور میں قوم اور فوج کے باہمی تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں فوج کی اعلیٰ قیادت نے قائداعظم تک کو نہیں بخشا۔ تاریخی شواہد کے مطابق قیام پاکستان کے فوراً بعد فوج کی اعلیٰ قیادت نے قائداعظم کو عشائیے پر مدعو کیا۔ عشائیے سے قبل باہمی تبادلہ خیال ہورہا تھا تو کسی اعلیٰ فوجی اہلکار نے قائداعظم سے کہا کہ آپ نے جنرل گریسی کو پاکستانی فوج کا سربراہ بنادیا ہے حالانکہ مقامی لوگوں میں بھی اہل لوگ موجود تھے۔ قائداعظم نے یہ سنا تو فرمایا کہ پاکستان میں پاکستان کی تقدیر کے فیصلے سول قیادت کرے گی۔ قائداعظم جنرل گریسی سے متعلق سوال پر اتنے ناراض ہوئے کہ وہ رات کا کھانا کھائے بغیر فوجی میس سے واپس لوٹ گئے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت تھی کہ متحدہ پاکستان میں بنگالیوں کی آبادی مجموعی آبادی کا 56 فی صد تھی۔ اس اعتبار سے پاک فوج میں بنگالیوں کی نمائندگی 56 فی صد ہونا چاہیے تھی۔ مگر بدقسمتی سے فوج کی اعلیٰ قیادت نے پنجاب کو متحدہ پاکستان میں ’’مقامی سامراج‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ اس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ متحدہ پاکستان میں پنجاب کی آبادی 30 فی صد تھی مگر فوج کا 70 فی صد حصہ پنجابیوں اور 20 فی صد حصہ پشتونوں پر مشتمل تھا۔ اس کے برعکس 1947ء سے 1960ء تک پاک فوج میں ایک بھی بنگالی موجود نہیں تھا۔ حالانکہ بنگالی متحدہ پاکستان کی آبادی کا 56 فی صد تھے۔ اس صورت حال نے بنگالیوں میں شدید احساس محرومی ہی پیدا نہیں کیا بلکہ بنگالیوں میں پنجاب کے خلاف جذبات پیدا ہوئے۔ چنانچہ 1960ء کے بعد بنگالیوں کو فوج میں شامل کرنے کا عمل شروع ہوا۔ تاہم 1971ء میں جب مشرقی پاکستان سے الگ ہو کر بنگلا دیش بنا تو فوج میں بنگالیوں کی موجودگی صرف آٹھ سے دس فی صد تھی حالانکہ بنگالی آبادی کا 56 فی صد تھے۔ اس پس منظر میں سقوط ڈھاکا سے ذرا پہلے جنرل یحییٰ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ فوج میں بنگالیوں کی تعداد میں سو فی صد اضافہ کیا جائے گا لیکن یہ بیان بھی ناکافی تھا۔ فوج کے پنجابی افسر میجر صدیق سالک نے اپنی کتاب میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا میں لکھا ہے کہ وہ 1971ء میں ایک فوجی چھائونی کے دورے پر گئے تو ایک بنگالی افسر نے جنرل یحییٰ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمہارے صدر نے کیا کہا ہے؟ صدیق سالک نے کہا کہ صدر نے کہا ہے کہ فوج میں بنگالیوں کی تعداد میں سو فی صد اضافہ کیا جائے گا۔ بنگالی افسر نے کہا کہ اگر صدر کے اعلان پر سو فی صد عمل ہو بھی گیا تو اس عمل کے بعد فوج میں بنگالیوں کی موجودگی 15 فی صد ہوجائے گی حالانکہ وہ آبادی کا 56 فی صد ہیں۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ صورت حال شیخ مجیب یا عوامی لیگ کی پیدا کردہ نہیں تھی۔ یہ صورت حال جرنیلوں کی پیدا کردہ تھی۔ 1971ء کے بحران میں جنرل نیازی ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر بنائے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ ہم بنگالیوں عورتوں کا اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ اس بیان نے 1971ء کے بحران میں جلتی پر تیل کا کام کیا اس لیے کہ ایسا بیان صرف بدترین بلکہ شیطان صفت دشمن ہی کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے 1971ء کے بحران میں ریپ کے واقعات ہوئے۔ صدیق سالک کے بقول یہ تعداد زیادہ نہیں تھی۔ لیکن اگر ریپ کے چند واقعات بھی ہوئے تو ان کا کیا جواز تھا؟
1970ء کے انتخابات شیخ مجیب نے نہیں جنرل یحییٰ نے اپنی نگرانی میں کرائے تھے۔ ان انتخابات میں عوامی لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کرلی تھی۔ چنانچہ صورت حال کا تقاضا یہ تھا کہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیا جائے مگر جنرل یحییٰ اور فوج کی اعلیٰ قیادت نے قوم کی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے بجائے الٹا بنگالیوں پر فوجی آپریشن مسلط کردیا۔ چنانچہ بنگالیوں اور فوج کے تعلقات خراب ہوئے تو اس کا ذمے دار شیخ مجیب نہیں فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت تھی۔
بھارت نے مشرقی پاکستان کے سیاسی بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مداخلت کی۔ اس صورت حال میں پاک فوج تین چار ماہ تک بھارت کی مزاحمت کرسکتی تھی مگر پاکستانی جرنیلوں نے مزاحمت کے بجائے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا ہتھیار ڈالنے والے دو چار ہزار نہیں تھے 90 ہزار تھے۔ یہ اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا سرینڈر تھا۔ اس سرینڈر نے فوج اور قوم کے تعلقات کو شدید زک پہنچائی لیکن اس کی ذمے داری قوم یا کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی اس کی ذمے دار فوج کی اعلیٰ قیادت تھی۔ ہم نے 1965ء میں بھی بھارت کے ساتھ جنگ لڑی تھی مگر اس وقت قوم اور فوج ایک وحدت تھے۔ ایک اکائی تھے۔ چنانچہ اس کے باوجود پاکستان اور بھارت کی طاقت میں کہیں ایک اور سات کا مقابلہ تھا اور کہیں ایک اور گیارہ ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ پاکستان نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ چنانچہ بھارت ’’تاشقند معاہدے‘‘ پر مجبور ہوگیا۔ مگر 1971ء کی جنگ میں فوج نے قوم کی اکثریت کو ناراض کرکے خودکشی کی راہ ہموار کرلی اور 16 دسمبر 1971ء کو قائداعظم کا آدھا پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔
جرنیلوں نے صرف بنگالیوں کو نہیں کچلا۔ انہوں نے 1980ء کی دہائی میں سندھیوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا اور گن شپ ہیلی کاپٹر تک استعمال کیے۔ چنانچہ 1980ء میں پروفیسر غفور اور مولانا نورانی کی سطح کے رہنما بیان دیتے تھے کہ دیہی سندھ میں مشرقی پاکستان جیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ جنرل ضیا الحق نے طاقت استعمال کرتے ہوئے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ جب سے فوج اور سندھیوں کے تعلقات بہت خراب ہوگئے۔ رہی سہی کسر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بے نظیر کے قتل نے پوری کردی۔ اس موقعے پر اگر آصف علی زرداری ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ نہ لگاتے تو سندھی بھی بنگالیوں کی طرح علیحدگی کے راستے پر چلے جاتے۔
بدقسمتی سے جرنیلوں نے بلوچستان میں بھی پنجاب کو ایک ’’مقامی سامراج‘‘ بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ جرنیل بلوچستان میں چار فوجی آپریشن کرچکے ہیں اور پانچواں آپریشن اس وقت جاری ہے۔ بلوچستان میں اس وقت پنجاب کے خلاف اتنا شدید ردعمل ہے کہ بلوچی معصوم پنجابیوں کو قتل کرنے لگے ہیں۔ نفرت اور ردعمل کی نفسیات ایسی ہی ہوتی ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ جنرل ضیا الحق تھے جنہوں نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایک معمولی جماعت سے ایک سیاسی طوفان بنایا پھر یہ فوجی قیادت ہی تھی جس نے کراچی میں دو فوجی آپریشن کرکے فوج کے خلاف ردعمل کو ہوا دی۔ کراچی میں پہلے فوجی آپریشن کے ابتدائی مرحلے ہی میں بریگیڈیئر ہارون نے بیان دیا کہ الطاف حسین کراچی کو جناح پور بنانا چاہتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ فوج اس سلسلے میں ٹھوس شواہد پیش کرتی بیان کے اگلے ہی دن بریگیڈیئر ہارون کو کراچی سے واپس بلالیا گیا لیکن اس سے ایم کیو ایم جیسی فسطائی جماعت کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ اس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا ہورہا ہے۔
2024ء کے انتخابات فوج نے کرائے مگر ان انتخابات میں پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر حصہ نہیں لینے دیا گیا۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے امیدواروں نے انفرادی حیثیت میں پارٹی کے نشان کے بغیر انتخابات میں حصہ لیا۔ اتفاق سے پی ٹی آئی کے امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوگئے مگر فارم 47ء کے ذریعے انہیں ہرا دیا گیا۔ یہ پوری صورت حال پوری قوم کیا پوری دنیا نے ملاحظہ کی۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کے خلاف جو عوامی ردعمل سامنے آیا اس کے ذمے دار عمران خان یا پی ٹی آئی ہے یا فوج کی اعلیٰ قیادت؟ اگر جرنیلوں کو ملک میں جمہوریت درکار نہیں تو یوں ہی سہی۔ وہ اعلان کریں کہ اب ملک میں کبھی انتخابات نہیں ہوں گے۔ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فوج کی حکومت ہوگی۔ لیکن خود ہی انتخابات کرانا اور خود ہی ان پر ڈاکا ڈال دینا نہ ملک و قوم کے مفاد میں ہے نہ فوج کے مفاد میں۔ اس سے فوج کا امیج خراب ہوگا اور بدقسمتی سے اس کی ذمے دار سیاسی قیادت نہیں فوجی قیادت ہوگی۔