بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا، اہم جغرافیائی حیثیت اور عظیم تاریخی ورثے کا حامل معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے۔ اس غیرمعمولی تزویراتی، جغرافیائی اہمیت اور وسائل کے باوجود بلوچستان طویل مدت سے دہشت گردی اور اس سے جڑے دیگر مسائل و مشکلات کا شکار ہے۔ بلوچستان کے مسائل کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل بیٹھ کر حل کرنے کے بجائے ریاستی طاقت کے زور پر کنٹرول کرنے اور رِٹ قائم کرنے کے یکطرفہ اور اندھا دھند اقدام نے اِن مسائل کو اور زیادہ گمبھیر بنادیا ہے۔ حالات سْدھرنے کے بجائے مزید خرابی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بلوچستان کے عوام بالخصوص نوجوانوںکے اندر بڑھتی ہوئی مایوسی، نااْمیدی اْن کے اندر بغاوت پر مبنی جذبات کو اْبھارنے کا باعث بن رہی ہے، جوکہ بحیثیت ِ مجموعی قومی سلامتی اور بلوچستان میں لا اینڈ آرڈر کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ صوبے کے عوام کی فیڈریشن پر اعتماد میں کمی ملکی سلامتی کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہوسکتی۔ بلوچستان میں موجود احساسِ محرومی کو ختم کرنے کے لیے وہاں کے عوام اور بااثر طبقات کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی سماجی روابط بڑھانا وقت کا تقاضا ہے۔ خاموش رہنے، ریت میں سر کو دباکر آنکھیں بند کرلینے اور بلوچستان کے عوام کے جذبات و احساسات کو سمجھے بغیر اچھے برے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے رہنے کی مقتدر حکمران طبقے کی پالیسی سمجھ سے بالا تر ہے۔ بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق بلوچستان کے عوام کا ہے۔ اِس اہم اور بنیادی اصول سے روگردانی بحرانی کیفیت کو بھڑکتی آگ میں تبدیل کردینے اور اِسے مزید تقویت دینے کا باعث بنے گی۔ بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کے ازالے اور وہاں پر دیرپا امن کے قیام، مسائل کے حل کے حوالے سے چند گزارشات بطور ناگزیر اقدامات حسب ِ ذیل ہیں:
ملک بھر بالخصوص بلوچستان کے عوام کو یہ پختہ یقین ہو کہ ملک میں آئین کی پاسداری، قانون کی حکمرانی عوام کی طرح ریاستی اداروں کی بھی ذمے داری ہے۔ قانون و انصاف کے نفاذ کے لیے شفافیت پر مبنی غیرجانبدارانہ نظام کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا۔ بلوچستان کے وسائل پر صوبہ کے عوام کا حق ِ ملکیت تسلیم کیا جائے۔
بلوچستان میں طویل عرصے سے بیرونی قوتیں دخل اندازی کرکے دہشت گردی کی سرپرستی کررہی ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس کا واضح ثبوت ہے۔ روس کے افغانستان پر جارحیت کے بعد اْس کے اہداف میں سے ایک ہدف گرم پانیوں یعنی گوادر تک رسائی بھی تھا۔ بلوچستان میں بیرونی قوتوں کی مداخلت روکنے اور وہاں پر جاری دہشت گردانہ کارروائیوں کی بیخ کنی کے لیے ریاست، ریاستی اداروں اور عوام کا باہمی اتحاد و اتفاق کے ساتھ ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ ریاست اور عوام کے درمیان مضبوط اعتماد کے رشتے کی بحالی ملک دشمن عناصر کی کامیابی کے ساتھ مقابلے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس معاملے میں پہل ریاست ہی کرسکتی ہے۔
پاک؍ چین اقتصادی راہداری منصوبہ یقینا گیم چینجر اور ملک و قوم کے لیے بہت اہم ہے، جس کے نتیجے میں ملک کے تین صوبے طویل موٹرویز اور دیگر عوامی منصوبوں، اورنج ٹرین وغیرہ سے مستفید ہورہے ہیں۔ لیکن بلوچستان جہاں اس اہم اقتصادی ترقی کے منصوبے کا مرکز گوادر واقع، اس پورے صوبے میں ایک کلومیٹر بھی موٹروے نہیں ہے؛ نہ ہی عوامی بہبود کا کوئی اور بڑا منصوبہ زیرتکمیل ہے۔ اِس ناانصافی کا ادراک کرکے بلاتاخیر خاتمہ کیا جائے۔ حکومت کا یہ اقدام بلوچستان کے عوام کے اندر بڑھتے ہوئے احساسِ محرومی کو ختم کرنے اور فیڈریشن پر اعتماد کی بحالی کا ذریعہ بنے گا۔ پاک چین اقتصاری راہداری منصوبے میں بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے لیے ریاست کی پالیسی اور حکمت ِ عملی منصفانہ اور نتیجہ خیز ہونی چاہیے۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قوم پرستی، علاقائی تعصبات کی آڑ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ دِنوں میں موسیٰ خیل کا لرزہ خیز سانحہ انتہائی افسوس ناک اور ہوشربا ہے۔ اِس قسم کے واقعات ریاست اور قومی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ قوم پرست جماعتوں اور بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے بھی نئے خطرات کا باعث ہیں۔ 26 اگست 2024ء کے لرزہ خیز واقعات کے اثرات کو نہایت احتیاط، حکمت و تدبر پر مبنی اقدامات سے مثبت سمت کی طرف لانے کی حکمت ِ عملی اپنائی جائے۔
بلوچستان میں عرصہ دراز سے رہائش پذیر افغان مہاجرین، تجارت پیشہ افراد کے لیے ماضی میں دی گئی غیرضروری رعایتوں پر مبنی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ عدمِ حکمت، عجلت اور روایتی طاقت کے استعمال اور کرپٹ نظام کے تحت معاملات کو چلائے رکھنے کے بجائے حکمت و دانش اور حقیقی قومی مفاد پر مبنی پالیسی اور اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ محض طاقت کے اندھا دْھند استعمال یا انتظامی نوعیت کے بعض سطحی اقدامات سے بلوچستان کے عوام کا اعتماد بحال نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچ، پشتون قبائلی نظام کے تحت جرگہ سسٹم کے ذریعے مسائل کا مرحلہ وار حل تلاش کیا جائے۔ اندھی طاقت اور عجلت پر مبنی اقدامات عوام کے اندر احساسِ محرومی میں اضافہ اور ملک دشمن عناصر کی سہولت کاری کا باعث ہوں گے۔
بلوچستان کی محب وطن جمہوری قیادت کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے شخصی آمریتوں، فوجی حکمرانوں کے دور میں غلط فہمیوں پر مبنی ظالمانہ طرزِ عمل اب بند ہونا چاہیے۔ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے نواب اکبر خان بگٹی جیسی محب وطن اور جمہوریت پسند قیادت کو ٹارگٹ کرکے قتل کرنے جیسے واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ من پسند سیاست دانوں کو دھاندلی کے ذریعے انتخابات میں جتوانے کے ناجائز حربوں اور طرزِ سیاست کو ختم کیا جائے اور پورے ملک سمیت بلوچستان کے عوام کو اپنی قیادت خود منتخب کرنے کا جمہوری حق دیا جائے اور آزادانہ، منصفانہ، غیرجانبدارانہ انتخاب کے نتیجے میں سامنے آنے والی عوامی قیادت، مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے۔ بلوچستان کے عوام کے حق ِ حکمرانی کو غلامی کے پنجرے میں بند نہ کیا جائے۔ اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ طاقت کے تمام مراکز کو تسلیم کیا جائے۔ بلوچستان کے عوام محب وطن اور باوقار روایات کے حامل لوگ ہیں۔ بلوچ عوام کا عزت و وقار ملحوظ رکھا جائے اور پشتونوں کے اعتماد کو بحال کیا جائے۔ بلوچستان کے اہلِ فکر و دانش اور سیاسی قیادت بلوچستان کے پْرعزم، باصلاحیت نوجوانوں کو ساتھ ملاکر، اْنہیں اعتماد میں لے کر مسائل کا حل نکالیں۔
بلوچستان میں حالات کی مرحلہ وار خرابی اور نوجوانوں کے اندر بڑھتی ہوئی مایوسی نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ ریاستی طاقت و جبر پر مبنی پالیسی نے یہاں کے نوجوانوں کے اندر مزاحمت پر مبنی جذبات کو فروغ دیا ہے، اور اْنہیں اپنی آزادی کے حق اور وقار کے تحفظ کے لیے اپنی مرضی کی راہ اختیار کرنے کی طرف راغب کیا ہے۔ ملک دشمن عناصر نے اِس تمام تر صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اْٹھاتے ہوئے یہاں کے نوجوانوں کے اندر بغاوت کے جذبات کو اْبھارنے کے لیے بے دریغ وسائل خرچ کیے ہیں۔ دوسری طرف ریاست طاقت کے بل بوتے پر صحیح اور غلط کی تمیز کیے بغیر لوگوں کو لاپتا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس نے بلوچستان کے عوام کے اندر، غم و غصے، اضطراب اور مایوسی کی کیفیت پیدا کی ہے۔ لاپتا ہونے والے افراد کی بعدازاں لاشوں کا ملنا اس منظرنامے کو مزید خوفناک بنادیتا ہے۔ اب وقت ہے کہ اس غیرمنصفانہ اورماورائے آئین و قانون طرزِ عمل پر نظرثانی کی جائے۔
بلوچستان میں تاریخی اعتبار سے خواتین سیاست سے الگ رہیں اور اپنی ثقافتی، تہذیبی عظیم روایات کے پاسبان بنی رہیں۔ لیکن نواب اکبر خان بگٹی کے المناک قتل کے بعد خواتین بھی احتجاج کے منظر پر نظر آئیں۔ پھر گوادر میں ’’حق دو‘‘ تحریک میں خواتین کا جوہری تاریخی کردار رہا اور اب لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے خواتین اپنے بچوں، خاندان کے دیگر افراد سمیت سڑکوں، چوراہوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ حالات کی سنگینی کا تقاضا یہی ہے کہ عوام کو درپیش حقیقی مسائل کا درست ادراک کرکے بروقت ازالہ کیا جائے۔
ایک اور انتہائی اہم اور قابل ِ توجہ پہلو بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں حکومت سازی کا عمل ہے، جس نے پورے بلوچستان کے سیاسی، جمہوری عمل اور حق ِ حکمرانی کو بے اثر اور غیرمتعلق کردیا ہے۔ بلوچستان کا نوجوان باشعور اور جمہوریت پسندہے، اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا تحفظ اور عوام کے مفادات کا سودا کرنے والی قیادت پر اْسے کوئی اعتماد نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ محض نمائشی اقدامات اور دعوئوں کے بجائے بلوچستان میں بسنے والے بلوچ اور پشتون عوام سمیت دیگر اقوام کے نوجوانوں کا سیاسی و جمہوری عمل پر اعتماد بحال کیا جائے۔
فوج، حساس خفیہ ادارے، دیگر سیکورٹی فورسز اور پولیس و سول انتظامیہ تو ملک بھر میں جگہ جگہ اپنی ذمے داریاں نبھارہے ہیں لیکن بلوچستان کے لیے انتظامی ریاستی ڈھانچہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔ قابل، فرض شناس، دیانت دار، حکمت و تدبر اور بحرانوں کو انسانی نفسیاتی اصولوں کی بنیاد پر حل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افسران کی میرٹ پر تقرر اور اِن تمام اداروں کے درمیان ادارہ جاتی ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ اگر حکومتی انتظامی اسٹرکچر میں کوئی ایک ادارہ اپنے آپ کو بالاست اور حاکمانہ مقام پر رکھے گا تو سسٹم کی یہی کمزوری باہم بداعتمادی اور انتشار کو دوچند کرنے کا باعث ہوگی۔ اس لیے بلوچستان جیسے حساس صوبہ کے لیے اس اہم مرحلہ پر اِس نکتہ کو بطور خاص پیش ِ نظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔
سیاسی استحکام پورے ملک کے لیے ضروری ہے۔ توقع تھی کہ 2013ء، 2018ء کے متنازع انتخابات اور تباہ کاریوں سے سبق سیکھا جائے گا اور 2024ء کے انتخابات ملک میں صاف، شفاف جمہوری عمل کو تقویت دینے کا باعث بنیں گے۔ لیکن توقعات کے برعکس 2024ء کے انتخابات گزشتہ انتخابات سے بھی زیادہ متنازع اور دھاندلی زدہ ہوگئے۔ اِن انتخابات نے عبوری حکومت کے قیام، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں اور عوام کے جمہوری حق و اعتماد کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ اب بحران در بحران کی کیفیت کو سنبھالنے کے لیے عوامی اعتماد اور مینڈیٹ سے محروم موجودہ حکومت کچھ نہیں کرپارہی، بلکہ اپنے مہربانوں، سرپرستوں کے لیے بھی اْلٹا عذاب اور رسوائی کا سبب بن گئی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ بلوچستان کی اِلارمنگ صورتِ حال کے تناظر میں 2024ء انتخابات کے نتائج سے فارم 45 کی بنیاد پر حقیقی عوامی مینڈیٹ کو تلاش کرنے اورکھلے دل سے تسلیم کرلینے کی ہمت و اخلاقی جرأت پیدا کی جائے، وگرنہ سیاسی بے شرمی اور کرسی سے چِمٹے رہنے کی ہَوَس سے مزید تباہی کے سِوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ریاستی ادارے، حکمران طبقہ اور بااختیار مقتدر حلقے اپنا اسلوب بدلیں اور قومی سیاسی جمہوری قیادت کو بھی اپنی روِش اور اسلوبِ سیاست بدلنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی بحرانوں کے حل کی بنیادی ذمہ داری تو سیاسی قیادت کی ہے۔ اگر سیاسی جمہوری قوتیں اسٹیبلشمنٹ کے ’حکیم خانہ‘ سے مسائل کا حل تلاش کرتی رہیں گی تو پھر طاقتور اسٹیبلشمنٹ بھی اْنہیں طشتری میں رکھ کر تو سیاسی جمہوری پارلیمانی ریلیف نہیں دے گی۔ قومی ترجیحات کے لیے قومی سیاسی قیادت کو statesmanship کا مظاہرہ کرنا ہوگا، وگرنہ محض جلسوں، تقریروں، پریس کانفرنسوں اور اپنے مافی الضمیر کے اظہار سے تو مسائل حل نہیں ہوں گے، بلکہ حالات مزید گمبھیر ہوتے چلے جائیں گے۔
اِس وقت پورے ملک میں حکومتی رِٹ عملاً ناپید ہورہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہم دست و گریباں اور ٹکرائو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں؛ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کی بلیک میلنگ اور دو رنگی کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہیں؛ اقتصادی بحران اور ملکی معاشی حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں؛ عوام کے لیے باعزت زندگی گزارنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ خطرات کے سائے پوری قوم کے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ اس لیے صرف اندھی ریاستی طاقت کے بل بوتے پر آئین و قانون کی پامالی کے ساتھ امن و امان کی صورتِ حال کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے حکمت و تدبر پر مبنی موثر حکمتِ عملی، تمام اسٹیک ہولڈرز ( قومی سیاسی قیادت، حکومت، ریاستی اداروں) کے درمیان بھرپور ہم آہنگی اور اتفاقِ رائے ضروری ہے۔
بلوچستان سمیت ملک بھر میں جاری سیاسی، معاشی بحرانوں سے نکلنے کے لیے مقتدر اور بااختیار قوتوں، قومی سیاسی جمہوری قیادت مل بیٹھ کر ایک متفقہ قومی ریاستی ایجنڈا اور پالیسی ترتیب دیں۔ بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کا ایک جامع پلان مرتب کرنے، وہاں کے نوجوانوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ایک جامع سماجی، تعلیمی، ترقیاتی پروگرام اور اس پر عملدرآمد کے لیے ٹھوس اور پائیدار اقدامات سے ہی ہم مسائل کے گرداب سے نکل سکتے ہیں۔ بلوچستان کے موجودہ سنگین حالات آنکھیں کھولنے اور دانش مندانہ اقدامات پر مبنی حکمت ِ عملی اختیار کرنے کا تقاضا کررہے ہیں۔