حافظ نعیم الرحمن صاحب سے ایک درخواست

328

بجلی کی بڑھتی قیمت اور بھاری ٹیکسوں کے خلاف 28 اگست کو پورے ملک میں کامیاب ہڑتال ہوئی جس میں تاجروں نے جوش و خروش سے حصہ لیا اور حکومت کے سامنے ثابت کر دیا کہ ملکی مسائل کو حل کرنے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومتی اعلیٰ عہدیداروں کی کرپشن کے خلاف ہم سب پاکستانی ایک ہیں۔ یہ کامیاب ملک گیر ہڑتال حافظ نعیم الرحمن کی کال پر کی گئی اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد خاص کر پاکستان کے تاجروں نے حافظ صاحب کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس ہڑتال سے پہلے بھی کئی جگہوں پر کامیاب دھرنے دیے جا چکے تھے جن میں صرف جماعت اسلامی کے لوگ ہی شامل نہ تھے بلکہ کثیر تعداد میں غیر جماعتی بھی شامل ہوتے رہے۔ حافظ صاحب کی کال پر لوگوں کی کثیر تعداد کا گھروں سے نکل آنا جن میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہوتے ہیں۔ گرمی کی شدت، گھروں میں ٹھنڈے کمروں کا آرام و سکون بھی انہیں نہ روک سکا، یہ ثابت کرتا ہے کہ حافظ صاحب لوگوں کے درمیان ایک موثر حیثیت رکھتے ہیں اور یہ جب بھی کسی مسئلے کے خلاف احتجاج کے لیے بلائیں گے لوگ ان کے بلانے پر گھروں سے نکلیں گے۔
حافظ صاحب! بہت بہت شکریہ کہ آپ نے پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد کو پہلی بار آئی پی پیز کی حقیقت سے آگاہی دی اور انہیں اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے کا شعور دیا۔ بلا شبہ تیزی سے بڑھتی مہنگائی اور بجلی کے بلوں کا بے تحاشا بوجھ غریب عوام پر بہت گراں گزر رہا ہے۔ اس کے لیے احتجاج کے طور پر واقعی نکلنا بنتا تھا۔ مگر ایک اہم مسئلہ اس سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ ہے پاکستان میں شرعی سزاؤں کے نفاذ کا نہ ہونا۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملکی آئین کے مطابق بھی ہمارا دستور قرآن ہے مگر اس دستور کے مطابق کہاں کس عدالت میں فیصلہ دیا جا رہا ہے؟ کہاں قاتل کا جرم ثابت ہونے پر قصاص میں گردن اُڑائی جاتی ہے؟ کہاں چور کا ہاتھ کاٹا جا رہا ہے؟ کہاں شادی شدہ زانی کو رجم کیا جا رہا ہے؟ کہاں شرابی کو کوڑے مارے جا رہے ہیں؟ کہاں کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرنے والوں کو سزائیں دی جا رہی ہیں؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری عدالتیں تو اس سے بالکل برعکس فیصلے دے رہی ہیں۔ قاتل چند سال بعد ہی دنداتے ہوئے وکٹری کے نشان دکھاتے ہوئے جیلوں سے بری ہو رہے ہیں۔ چور پہلی بات ہے کہ پکڑے ہی نہیں جاتے اگر پکڑے بھی جائیں تو پولیس کو ہی دے دلا کر جلد رہا ہو جاتے ہیں۔ زانی اور شرابی گلی کوچوں میں دنداتے پھر رہے ہیں۔ سب اصل جانتے ہوئے بھی ان سے ایسے چشم پوشی کر جاتے ہیں کہ گویا ان کا جرم کوئی ایسا جرم نہیں ہے جس پر پوچھ گچھ کی جائے۔ ہمارے قانون دان اللہ تعالیٰ کی مجرموں پر مقرر کی گئی سزاؤں کو بڑی ڈھٹائی سے پامال کر کے ربّ کی نافرمانی کرتے ہیں اور ہم سب اس ظلم پر گہری چپ سادھے خاموش بیٹھے ہیں۔ جس کا نتیجہ ہم اپنے بے سکون، خوف و ہراس سے بھرپور معاشرتی حالات کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ لوگ بے اعتمادی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں اور صرف ظالم اور مظلوم کی دو کیٹگری میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ کہ یہاں یا تو ظالم نظر آتے ہیں یا پھر مظلوم۔ یہاں زیادہ تر مظلوم تو انصاف حاصل کرنے کے خوفناک ٹرائل سے گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ظالم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انصاف حاصل کرنے کے راستے میں پولیس اور وکلا پر دونوں ہاتھوں سے پیسہ نچھاور کرنا پڑے گا۔ اگر کوئی سر پھرا مظلوم انصاف حاصل کرنے کے جوش میں ان جگہوں پر پیسہ پانی کی طرح بہا بھی دیتا ہے تو اسے جج کے سامنے منہ کی کھانی پڑتی ہے کیونکہ ظالم اس سے زیادہ پیسے کی چمک دکھا چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ظالم اور زیادہ طاقتور، خوفناک ہو جاتا ہے۔ ظلم کی دنیا میں اس کی اور زیادہ حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے۔
امیر محترم حافظ نعیم الرحمن صاحب!
پاکستان میں شرعی سزاؤں کے نفاذ کا نہ ہونا مہنگائی اور مہنگی بجلی سے بھی بڑا اور خطرناک مسئلہ ہے۔ اس سے ہر پاکستانی کسی نہ کسی طور پر متاثر ہے۔ جس طرح بجلی کے معاملے میں پورے پاکستان میں احتجاج اور ہڑتال کی گئی۔ اس طرح آپ شرعی سزاؤں کے نفاذ کے لیے بھی پاکستانی عوام کو اکٹھا کریں کیونکہ پاکستانی عوام آپ کی کال پر نکلتے ہیں۔ عوام کے ساتھ آپ مل کر احتجاج کریں، دھرنے دیں، ہڑتالیں کریں، نوجوانوں کو موٹیویٹ کریں، اس سب کے ذریعے حکومت اور عدالتوں کو شرعی سزائیں نافذ کرنے پر مجبور کر دیں کیونکہ جب شرعی سزاؤں کا نفاذ ہو جائے گا۔ قاتل کی گردن کٹتے دیکھ کر دوسرے سر پھرے، لفنڈر، غنڈے بھی کسی کی جان لینے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔ انہیں اپنا انجام پہلے ہی نظر آ رہا ہوگا کہ قتل کرنے کے بعد گردن ان کی بھی سر پر نہیں رہے گی۔ چور ڈاکو کا کٹا ہاتھ پورے معاشرے کے لیے عبرت ہوگا۔ وہ کٹے ہاتھ کے ساتھ جہاں جہاں جائے گا لوگوں کو دعوت عبرت دے گا۔ اسی طرح دوسری برائیوں کا حال ہوگا اور لوگ برائی کرنے سے پہلے اپنا انجام ضرور سوچیں گے بلکہ چھپ چھپا کر بھی برائی کی طرف جانے سے احتراض کریں گے۔ اگر ایسا ہو جائے گا تو ہماری معاشرتی زندگی کتنی خوبصورت ہو جائے گی۔ ہمارا ملک امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا۔ ہمارے لوگ خاص کر قابل نوجوان اپنا ملک چھوڑ کر جانے کا کبھی نہیں سوچیں گے کیونکہ معاشرتی زندگی ہو سکتا ہے روٹی کے بغیر تو زندہ رہ جائے مگر انصاف کے بغیر کبھی بھی زیادہ دیر زندہ نہیں رہ پاتی اور شرعی سزاؤں کا نفاذ اس وقت ملک کی سب سے شدید ترین ضرورت ہے۔