حجاب… حیا کا اظہار ہے

170

مغربی معاشرت کے تین ستون بڑے واضح ہیں۔ نمبر ایک عورتوں اور مردوں کی مساوات کا نعرہ، دوسرا عورتوں کو آزادانہ معاشی خود مختاری دینا اور تیسرا زندگی کے ہر میدان میں دونوں صنفوں کا آزادانہ اختلاط یعنی بھرپور میل جول… مساوات کے نعرے نے عورت کے لیے مرد کی شخصیت اور اس کے کردار اور عمل کی پیروی لازم قرار دی، یوں عورت کو اپنے فطری کردار سے دور کردیا گیا۔ شادی شدہ زندگی، بچوں کی تربیت، گھر اور خاندان کا انتظام دوسرے بلکہ تیسرے درجے کا کام قرار دیا گیا۔ معاشی خود مختاری نے عورت کو مرد سے بے نیاز کرنے اور آزادانہ زندگی گزارنے کا سراب دکھایا۔ کما کر پیسہ حاصل کرو اور پھر اپنی مرضی کی زندگی گزارو، گھر کا انتظام کرنے کے لیے کسی آیا اور میڈ کو نوکری دے دو… یوں عورت گھر سے دور کردی گئی۔ عورت کے باہر نکلنے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اس کی حجاب سے دوری لازم قرار دے دی گئی۔ کسی بھی مخلوط سوسائٹی میں عورت کو زیادہ جازبِ نظر بن کر شامل ہونا اُس کی ترقی کا زینہ قرار دیا جانے لگا… یہ وہ چیز تھی جس نے مغربی معاشرت کو بدل کر رکھ دیا تھا، خاندان ختم ہونے لگے، عورت اور مرد تنہا زندگی گزارنے کو ترجیح دینے لگے۔ اولاد کو بوجھ سمجھا جانے لگا، بدلے میں اولاد نے بھی اپنے بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھا اور اولڈ ایج ہائوسز میں ڈالنا شروع کردیا۔ شرح پیدائش جب کم ہوئی اور اِن سارے طور طریقوں کے مضر اثرات محسوس کیے تو خاندان اور عورت کو گھر میں واپس لانے کا خیال آیا لیکن اب تو جن بوتل سے باہر آچکا تھا۔ اب مسلم معاشرے کی باری تھی، مسلمان معاشرے میں اسی افراط و تفریط کے لیے عورت کو ترقی کا سراب دکھانے کا اہتمام کیا گیا۔ اس کے لیے برقعہ اور پردہ دقیانوسی ٹھیرایا گیا۔ بڑھتے بڑھتے بات دوپٹوں تک آپہنچی۔ بغیر دوپٹے جو خوبصورتی نظر آسکتی ہے وہ بھلا دوپٹے کے ساتھ کیسے نظر آئے گی۔ لہٰذا آج کی ماڈرن خاتون نے دوپٹا اُتار پھینکا اور بگٹٹ اسی راستے پر چل نکلی جس نے مغرب کی معاشرت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ اور عورت کو ایک شوپیس اور نمائشی جنس بنا کررکھ دیا ہے۔
اب فیشن کا سیلاب جیسے اُمنڈتا چلا آتا ہے اور عورت بغیر سوچے سمجھے اُس کو اپناکر اپنے آپ کو ماڈرن اور فیشن ایبل کہلانے میں فخر محسوس کرتی ہے، یوم حجاب کے موقع پر ہر عورت کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے۔ حیا اور حجاب کے رشتے کو جان لے اور حجاب کے ذریعے اپنی خوبصورتی کی حفاظت اختیار کرنے میں فخر محسوس کرے۔ حیا سے عاری ہر فیشن کو مسترد کردے کیونکہ یہ شاداب چمن نہیں بے روح بہاروں کے نقیب ہیں۔
میں نے دیکھا ہے کہ فیشن میں اُلجھ کر اکثر
تم نے اسلاف کی عزت کے کفن بیچ دیے
نئی تہذیب کی بے روح بہاروں کے عوض
اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دیے
کہتے ہیں کہ حسن سچائی کا نام ہے اور سچائی نظر آتی ہے۔ سچائی میں عوام الناس کے لیے بھی فلاح کا سامان ہے اور کائنات کے لیے بھی۔ باغ کا پتا پتا بوٹا بوٹا اُس سے اپنے حصے کی فلاح سمیٹتا ہے۔ لیکن اگر حسن میں فتنہ پروری شامل ہوجائے تو نہ تو وہ حسن ہوتا ہے اور نہ سچائی۔ پھر ایسا حسن درد و غم، ندامت اور الزام کے راستے کھولتا چلا جاتا ہے۔
عورت کا حسن سچائی ہے اس سچائی کی آشکار ائی حرم کے اندر ظاہر ہوتی ہے۔ سو باغِ حرم کا پتا پتا بوٹا بوٹا اُس سے اپنے حصے کی فلاح سمیٹتا ہے۔ لیکن اگر یہ حسن حرم کے باہر اپنے ظاہری حسن کی آشکارائی چاہے تو فتنہ پروری کو اپنا شعار بنالیتا ہے۔
خدا نے ہمیں اور دوسروں کو فتنہ پروری سے بچانے کا خاص انتظام کیا ہے لہٰذا حجاب خدا کی طرف سے خواتین کے لیے ایک تحفہ ہے۔ جس کو اپنا کر وہ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ پورے معاشرے کو فتنے سے بچا سکتی ہے۔ ساتھ ہی اپنے کاموں کے لیے باحجاب باہر نکل سکتی ہے۔ یہ شریف اور باحیا خواتین کی پہچان ہے۔ بے اعتدالی سے بچ کر ایک توازن کے ساتھ معاشرے کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اسلامی معاشرت کے حسین قصر کی تعمیر یقینا ایسی باحجاب خواتین کی مرہون منت ہے۔ آئیے اپنے اپنے ماہ و اختر سے اس قصر میں چار چاند لگائیں کہ
پوشیدہ نہیں کون سا جوہر میرے اندر
یوں جان کہ ہیں سات سمندر میرے اندر
وہ کار گہہِ عشق ہوں تخلیق کی زد میں
گردش میں ہیں پیہم مہ و اختر مرے اندر