نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی ہر قانون سازی غیر شفاف، مفادات اور بدنیتی پر مبنی ہے، جعلی انتخابی نتائج کی وجہ سے حکومت اور اسمبلیوں کی عوام میں پہلے ہی کوئی ساکھ نہیں، ملک میں کہیں حکومتی رٹ اور اس کے وجود کا کوئی اثر نہیں۔ اگر جعلی بنیاد پر اکثریت حاصل کرکے متنازع آئینی ترامیم کی گئیں تو یہ آئین اور قانون سازی کا میگا اسکینڈل ہوگا، متنازع فیصلوں اور قانون سازی سے عدلیہ کو حکمراں رسوا نہ کریں، بدنیتی پر مبنی کسی قانون سازی، آئینی ترامیم کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ، عدالت عظمیٰ کے فاضل جج ازخود کسی بھی سہولت سے استفادہ کرنے سے انکار کردیں، اس سے عدلیہ کا وقار بڑھے گا اور حکومتی مفاداتی طاقت پر قانون سازوں کی بھی بیخ کنی ہوگی۔ مسئلہ عدلیہ میں ججوں کی تعداد بڑھانے یا کم کرنے یا مدت ملازمت میں اضافہ کرنے کا نہیں، ہر چیز آئین اور قانون کے مطابق ہوسکتی ہے، لیکن موجودہ ماحول، متنازع کردے گا اور طویل مدت تک اس کے سنسنی خیز اثرات مرتب ہوں گے اور زوال پزیر عدالتی نظام برق رفتاری سے زمین بوس ہوگا۔ تجربہ کار پارلیمنٹرین اور سیاسی رہنما لیاقت بلوچ نے سیاست و حکومت کے بااثر لوگوں کو بروقت متنبہ کیا ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کے سیاسی حالات نہایت دگرگوں ہیں اور اہل نظر مستقبل کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ پاکستان میں آئین اور قانون موجود ہونے کے باوجود آئین کی بالادستی اور قانون پر حکمرانی کا فقدان ہے، تمام حکومتی اداروں کے فرائض، اختیارات اور دائرہ کار کا تعین آئین کرتا ہے۔ خوش قسمتی سے 73 کے دستور پر قومی سطح پر اتفاق رائے موجود ہے، لیکن ہر سیاسی کارکن اور مبصر یہ دیکھ رہا ہے کہ فوجی طاقت کے بل پر مفاد پرست طاقتور اشرافیہ اپنی مصلحتوں کے تحت نئی آئین میں ترمیم اور قانون سازی کی جارہی ہے، پاکستان میں ریاست کی علامت صرف پاکستان کا دستور اور اس کے عوام ہیں، لیکن جس طرح آئین اور دستور کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے اس کی وجہ سے پاکستان کا بحران شدید سے شدید تر ہورہا ہے۔ خود تمام سیاست دان یہ کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان کے بزرگ سیاستداں سردار اختر بلوچ ریاست کے بالا ترین ادارے پارلیمان سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف کے نمائندوں نے ان سے ملاقات کی اور انہیں اپنا استعفا واپس لینے کی درخواست کی لیکن وہ انہیں قائل نہیں کرسکے ہیں۔ پاکستان کے بحران زدہ صوبوں سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاست داں سردار اختر مینگل کی پارلیمانی نظام سیاست سے مایوسی خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایسے عالم میں جب فوج، بیوروکریسی، مقننہ اپنی اخلاقی ساکھ سے محروم ہوچکی ہیں عدلیہ کی ساکھ بھی خطرے میں ہے۔ شکایتوں کے باوجود قومی سطح پر اتفاق رائے موجود ہے جس کی وجہ سے عدلیہ آخری ادارہ رہ گیا ہے جس پر قومی اتفاق رائے موجود ہے لیکن حکومت کے مختلف اجزا اپنی شخصی اور طبقاتی مصلحتوں کی بنا پر جو قانون سازی کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد عدلیہ بحیثیت ایک ادارہ تباہ ہوجائے گا۔ ابھی تک اشخاص پر تو تنقید کی جاتی تھی بحیثیت ادارہ عدلیہ کے بارے میں قومی اتفاق رائے موجود ہے، اسی مسئلے پر تجربہ کار سیاستدان اور سابق پارلیمنٹرین لیاقت بلوچ کا انتباہ قابل غور ہے۔ اگر طاقتور اداروں کی ڈکٹیشن اور ہدایات پر انتہائی محدود اور پست مفادات کے لیے قانون سازی کی روش کو جاری رکھا گیا تو جمہوری نظام کو بھی آمرانہ اور استبدادی نظام قرار دے دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں سب سے اہم نکتہ جس پر لیاقت بلوچ صاحب نے اصحاب حل و عقد کی توجہ مبذول کرائی ہے وہ یہ ہے کہ متنازع انتخابی نتائج کی وجہ سے حکومت اور قانون ساز اسمبلی کی کوئی سیاسی اور اخلاقی ساکھ نہیں ہے، اس پس منظر میں لوگوں کو صاف نظر آرہا ہے کہ آئینی ترمیم اور قانون سازی حکمرانوں کی بدنیتی کی بنیاد پر کی جارہی ہے، یہاں تک پارلیمان کے بعض ارکان اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتے ہوئے شہریوں کے بنیادی حقوق کو بھی سلب کرنے سے گریز نہیں کررہے ہیں اور عوام کے جلسہ جلوس کرنے، سیاسی جدوجہد کرنے اور حکومت کے غلط فیصلوں کے خلاف احتجاج کرنے کے حق کو بھی سلب کرنے کی قانون سازی کرنے کی جرأت کی جارہی ہے۔ پارلیمانی سیاست سے مایوسی کے ماحول میں متنازع قانون سازی اور آئین میں ترامیم کے بعد قومی اتفاق رائے کی واحد بنیاد بھی منہدم ہوجائے گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو کم از کم ایک بات ثابت کرنی ہوگی کہ آئین میں ترمیم، قانون سازی اور حکومتی فیصلوں کا اصل اختیار پارلیمان کے پاس ہے۔ لیکن پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے محض اقتدار کے لیے جو متنازع فیصلے کیے ہیں اس نے حالات بہتر بنانے کے بجائے آمریت اور استبدادی حکومت کو آئینی اور قانونی جواز دینے کی کوشش کی ہے۔