معیشت کی بحالی کا دعویٰ

278

وزیراعظم، وزیر خزانہ اور حکومتی ٹیم کے ارکان یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ہم نے پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا ہے۔ معیشت اپنی پٹڑی پر چڑھ گئی ہے، مہنگائی میں کمی آئی ہے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے حکومتی اداروں کی جاری کردہ مختلف رپورٹوں کے حوالے بھی دیے جاتے ہیں لیکن اس دعوے کو کوئی شخص قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس لیے کہ زندگی کا ذاتی تجربہ کسی بیان یا دعوے سے متاثر نہیں ہوتا۔ جس دور میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت لاہور کا ایک شہری اپنی بیوی، بچوں کو زہر کھلا کر خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھالے وہاں اعداد و شمار کی کوئی اہمیت نہیں، ان دعوئوں اور طرزِ عمل کی وجہ کیا ہے اس کی ایک شہادت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے دی ہے۔ وہ کفایت شعاری اور حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے قائم کی گئی کمیٹیوں کے رکن تھے، انہوں نے حکومت اور طاقتور اشرافیہ کی نیت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ان تمام سرکاری کمیٹیوں سے استعفا دے دیا۔ انہوں نے گواہی دی ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلام آباد کے ایوانوں اور محلات میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو احساس ہی نہیں ہے کہ ملک کی معیشت کس بحران میں مبتلا ہے۔ اس احساس نے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی متاثر کیا ہے۔ امید کی کرن نظر نہیں آرہی۔ ملک میں معاشی بحران ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں لیکن وہ بحران کسی ایک شعبے کو متاثر کرتے تھے جس کی وجہ سے دیگر شعبوں کی مدد سے بحرانوں پر قابو پالیا جاتا تھا، یا اس کے منفی اثرات کا مقابلہ کرلیا جاتا تھا لیکن اب جس بحران میں قوم مبتلا ہے اس سے کوئی بھی شعبہ محفوظ نہیں ہے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے، اس لیے کہ آپ کے پاس قرض اور اس کا سود ادا کرنے کے لیے رقم موجود نہیں ہے۔ قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لیا جارہا ہے لیکن اب کوئی بھی ادارہ یا ملک قرض دینے کو تیار نہیں ہے۔ ابھی خبر یہ آئی ہے کہ 7 ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف سے ہونے والی بات چیت کے تحت ستمبر کے آخر میں معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے لیکن یہ بھی ابھی وعدہ ہے۔ اس کے باوجود اس سوال کا جواب نہیں ہے قرضوں کی معیشت کی جکڑ بندی سے کیسے نجات حاصل ہوگی۔ حکومت نے سارا زور اس بات پر ڈال دیا ہے کہ پاکستان کے تاجر اور صنعت کار ٹیکس نہیں دیتے اس لیے حکومت قرضہ ادا نہیں کرسکی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملکی معیشت مزید ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ جب قرضوں کے معاہدے کیے گئے تو اس بات کا جائزہ ہی نہیں لیا گیا کہ یہ قرضے کیسے ادا کیے جائیں گے۔ ان قرضوں کی معیشت کا نتیجہ قوم کے حق میں تباہ کن نکلا ہے، قرضوں کے معاہدے کرنے والی مقتدر اشرافیہ اس ملک کی سب سے بڑی مجرم ہے۔ معیشت کے ہر شعبے میں زوال آتا رہا ہے، لیکن حکومتی افسر شاہی، بین الاقومی ’’کارپوریٹو کریسی‘‘، اس کے مقامی اہلکار، سیاسی خانوادوں سے گٹھ جوڑ کرکے قوم کے وسائل پر ’’ڈاکہ‘‘ ڈالتے رہے۔ اپنے لیے مراعات حاصل کرتے رہے اور سارا بوجھ قوم کے اوپر لاد دیا۔ یہاں تک کہ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھنے کا شعبہ ٹیکسٹائل بھی برباد ہوگیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق حالیہ عرصے میں فیصل آباد میں 50 کے قریب ٹیکسٹائل ملیں بند ہوئی ہیں۔ پاکستان کے صنعتی شعبے میں بحران پیدا ہونے کے جو بہت سے اسباب ہیں ان میں کلیدی سبب بجلی، گیس سمیت بنیادی سہولتوں کا مہنگا ہونا ہے اس کی وجہ سے بڑی اور چھوٹی صنعتوں کی پیداواری لاگت اتنی بڑھ گئی کہ بیش تر کارخانے بند ہوگئے۔ مہنگائی میں اضافے کے تناسب سے آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا۔ بلکہ خاصی بڑی تعداد اپنی آمدنی سے بھی محروم ہوچکی ہے۔ صرف بجلی کے بلوں کا مسئلہ متوسط اور غریب طبقے کے لیے پوری زندگی کا کلیدی مسئلہ بن چکا ہے، لوگوں نے اپنی موٹر سائیکلیں اور دیگر اشیا بیچ کر بجلی کے بل ادا کیے۔ ان واقعات سے حالات کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر اسلام آباد میں عوام کی بڑی تعداد 14 روز تک مسلسل دھرنا دے چکی ہے۔ اس دھرنے میں مسلسل عوام کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ حکومت نمائشی اقدامات سے قوم کو مطمئن نہیں کرسکتی۔ عوامی غیظ و غضب کو بھڑکنے سے روکنے کے لیے شریف خاندان نے پنجاب میں صوبائی حکومت کے ذریعے 2 ماہ کے لیے بجلی نرخوں میں کمی کا اعلان کیا اور اس رقم کو حکومتی خزانے سے زرتلافی کی مد میں خرچ کرنے کا اعلان کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ دو ماہ کی ریلیف اور وہ بھی ایک صوبے میں مسئلہ کا کوئی حل نہیں تھا۔ وزیراعظم نے اس مثال کو پیش کرکے صوبوں سے کہا کہ وہ بجلی میں زرتلافی ادا کرنے کے لیے رقوم مختص کریں لیکن آئی ایم ایف کے ذرائع سے یہ ہے ایک معاصر اخبار نے خبر دی ہے کہ آئی ایم ایف نے پنجاب میں بجلی کے بلوں میں دیے جانے والے ریلیف کو ختم کرنے کا مطالبہ کردیا ہے، اسی کے ساتھ آئی ایم ایف نے حکومت کے اس ارادے پر بھی روک لگادی ہے کہ صوبوں کے ذریعے بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا جائے، اس لیے کہ وہ کسی بھی شعبے میں زرتلافی ادا نہیں کرے گی بلکہ ساتھ ہی صوبوں کے بجٹ میں بھی محصولات کی وصولی کے لیے ہدایت جاری کردی ہے۔ اس لیے موجودہ بحران سے نجات کے لیے ایک بڑی جنگ قوم کو لڑنا ہوگی لیکن اس کے لیے اس طبقے سے نجات حاصل کرنا ہوگی جو عوامی احتساب سے بالاتر ہیں لیکن قوم کو متاثر کرنے والے فیصلوں کے اختیارات انہیں کے پاس ہیں۔