حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ،حیا خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے

200

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ‘ حیا خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت مقدس اور قیمتی ہستی ہے ‘ مغرب نے خواتین کوشمع محفل بنا دیا ‘حجاب ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہماری تہذیب کااہم جزہے‘ ترقی کے نام پر خواتین کا استحصال کیا جارہا ہے ‘ کئی ممالک میں حجاب پر پابندی عاید کر دی گئی ہے۔ان خیالات کا اظہار اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی واحد خاتون رکن، انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کی رکن، حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی نائب قیمہ ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی‘ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی ترجمان و سابق رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو اور ویمن اسلامک لائرز فورم کی چیئرپرسن طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا حجاب ملک کی تعمیر و ترقی میں حائل ہے؟‘‘ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ آ ج کے اس دور میں حجاب آزادی کی توانا علامت بن کر سامنے آ رہا ہے‘ زندگی کے ہر شعبے میں باحجاب خواتین کی بھرپور شمولیت اس بات کا اعلان ہے کہ حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ ممد و معاون ہے‘ مثال کے طور پر سرجن انسانی زندگی کا سب سے نازک ترین کام کر رہا ہوتا ہے جب وہ کسی انسان کے دل یا دماغ کا آپریشن کرتا ہے اور اس وقت وہ سر سے پائوں تک حجاب میں ملبوس ہوتا ہے حتیٰ کہ نقاب بھی کیا ہوتا ہے، سر بھی ڈھکا ہوتا ہے ، دستانے بھی پہنے ہوتے ہیں اور گائون کی صورت میں لباس بھی پہنا ہوتا ہے اور اس کے لیے حجاب کی یہ سب تفصیلات انسانی زندگی کے اس نازک ترین کام میں رکاوٹ نہیں بنتیں بلکہ معاون ثابت ہوتی ہیں کہ اسے مریض کے انفیکشن اور دوسری بیماریوں سے بچائو کا سامان مہیا کر رہی ہوتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت بھی ایک مقدس اور قیمتی ہستی ہے جس کو اُس کا حجاب مزید وقار عطا کرتا ہے اور اُسے افتخار اور اعتبار بخشتا ہے‘ تہذیب جدید نے اس فطری اصول سے بغاوت کرکے عورت کو محبت اور حفاظت کے حصار سے نکال کر آزادی، مساوات اور حقوق کے نام نہاد نعروں کے دھوکے میں مبتلا کرکے شمع محفل اور (Commercial Commodity) بنا دیا ہے۔ عالمی استعماری طاقتوں نے اُمت مسلمہ پر تہذیبی یلغار کرتے ہوئے اسلامی شعائر کو ہدف بنایا ہوا ہے‘ جہاد، ناموس رسالتؐ، خاندانی نظام اور حجاب ان کے خصوصی اہداف ہیں‘ ہر جگہ ان شعائر کو جو تہذیب اسلامی کی علامات ہیں کو انتہا پسندی، قدامت پرستی اور دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے‘ یہ دنیا جو کہ اب Symbolism کی دنیا بنتی جا رہی ہے‘ ہمارا یہ خوبصورت حجاب ہماری شناخت اور انفرادیت کا نشان ہے‘ بے حجابی کسی اجنبی تہذیب کی شناخت ہے‘ دشمن چاہتا ہے کہ ہم سے ہمارا تعارف، ہمارا فخر اور ہماری شناخت چھین لے‘ کیا ہم کسی اجنبی تہذیب کے علمبرداروں کو اپنی شناخت چھین لینے کی اجازت دیں گے؟ تقریباً 2 عشرے ہونے کو ہیں‘ ہمارا حجاب کا یہ سفر دن بدن منزل کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے‘ ہر طرف حجاب کے مناظر روح کو ایمان کی حلاوت سے آشنا کرتے جا رہے ہیں مگر شیطانی قوتیں بھی میڈیا کے ذریعے یلغار جاری رکھے ہوئے ہیں‘ ہم تمام مقتدر قوتوں اور میڈیا کے ذمہ داران اور کارکنان سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنی آنے والی نسلوں کی کردار سازی اور ان کے اخلاق کی تعمیر کے لیے اور اپنے خاندان کو محفوظ کرنے کے لیے ہمارا ساتھ دیں اور اس نعرے کو معاشرے میں پھیلائیںکہ ’’تہذیب ہے حجاب‘‘ یہ حجاب اب عالم میں انقلاب کا استعارہ بن چکا ہے‘ پہلے اسے پسماندگی کی علامت سمجھا جاتا تھا مگر اب انقلاب اور تبدیلی کی لہروں میں اسے ہر جگہ پر دیکھا جا سکتا ہے‘ انقلاب کے اس سفر میں حجاب کی بہار بھی ہر طرف آگئی ہے‘ حجاب کو صرف ایک گز کا ٹکڑا نہیں سمجھنا، نہ ہی اسے صرف عورت سے وابستہ کرنا ہے‘ نہ ہی اسے لباس سے وابستہ کرنا ہے‘ قرآن و سنت میں حجاب کے احکام کا آغاز مردوں سے مخاطب ہو کر کیا جاتا ہے‘ حجاب تہذیب ہے‘ اسے خاندان، معاشرے اور ریاست میں محبت، احترام، وقار، ایثار، قربانی اور حفاظت کے رویے سے پروان چڑھانا ہے‘ 4 ستمبر 2004ء کو نقاب پر پابندی پر احتجاج کے لیے یہ دن منانا شروع کیا گیا مگر آج ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی درندگی نے اس دن کی اہمیت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے‘ آئیں اپنے معاشرے کو ہر قسم کے تعصبات، وحشت و سفاکیت سے محفوظ کرکے اپنے لوگوں کو حقوق اور شعور کی آگہی دیں‘ معاشرے کو محفوظ بنائیں۔ سائرہ بانو نے کہا کہ حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہے‘ حجاب یا پردہ عورت کی زینت ہے‘ حیا ہر انسان کی خوب صورتی میں اضافہ کرتی ہے‘ آج کل حجاب پہننا ایک عام بات ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں خواتین اسے پہنتی ہیں‘ ان میں سے ہزاروں کاروباری خواتین کارپوریٹ شعبے میں کام کر رہی ہیں یا یونیورسٹیوں میں پڑھاتی ہیں‘ وہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ہی اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں ادا کرکے پھل پھول رہی ہیں‘ حجاب پہننے والی خواتین تقریباً ہر بین الاقوامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد پیشہ ورانہ زندگی کے ہر شعبے میں کمال حاصل کر رہی ہیں‘ اس جدید اور پرفتن دور میں حجاب کو مشکل بناکر عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے‘ یہاں تک کہ کئی ممالک میں حجاب پر پابندی بھی عاید کر دی گئی ہے۔طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب مرد عورت کی تخلیق کی تو عورت کو سب سے زیادہ حساس اور اہم ترین کام سونپا‘ وہ ہے نسل نو کی تعمیر و تربیت کا کیونکہ ملک، اقوام اور ادارے مشینوں سے نہیں چلتے بلکہ افرادی صلاحیت سے چلائے جاتے ہیں‘ عورت اپنی اور اپنے ملک کی ترقی میں بہترین کردار ادا کر سکتی ہے اور کر رہی ہے‘ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’عورت قواریر ہے، موتی ہے‘‘۔ اگر عورت اپنے اہل خانہ کی مالی مدد کرنے، خودمختار ہونے اور ملکی ترقی کے لیے مغربی اقدار اختیار کر لے تو اس سے اس کے مقاصد تو پورے ہو سکتے ہیں اور معاشرہ مادی ترقی بھی کر سکتا ہے لیکن اس کی اخلاقی و سماجی اقدار اور اطوار تباہ و برباد ہو جائیںگی‘ بحیثیت مسلمان ہمارا مطمح نظر ہمیشہ آخرت ہے‘ ہمیں دنیا کے ساتھ آخرت کی تیاری کرکے کامیابی حاصل کرنی ہے‘ ہمیں اپنے ملک کی ترقی میں خواتین کو بھرپور حصہ دلانا ہے لیکن ان کے عزت و احترام کو بھی سامنے رکھنا ہوگا تاکہ معاشرے میں فساد نہ ہو‘ معاشرے میں زیادتی، طلاق و خلع کے کیسز سماجی و اخلاقی برائیوں کی وجہ سے عروج پر ہیں‘ عورتوں کی ترقی کے نام پر ہی ان کا استحصال کیا جا رہا ہے۔