اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ میں کیس کی سماعت کے دوران وکیل نعیم بخاری اور چیف جسٹس میں مکالمہ ہوا جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ آپ آواز اونچی کرکے سمجھتے ہیں میں ڈر جاؤں گا؟ ڈرنے والا نہیں ہوں۔ عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مونال سمیت 2 ریسٹورنٹس کی بندش کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی جس دوران ریسٹورنٹ مالکان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو ریسٹورنٹ مالکان کی رضامندی سے فیصلہ دیا تھا جس پر وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ وہ رضامندی رضاکارانہ نہیں دی گئی تھی، 2 ہی آپشن دیے گئے تھے یا اسی دن بند کریں یا وقت لیں، ریسٹورنٹ کے مختلف شیئر ہولڈرز ہیں، ہمیں مؤثر حق سماعت نہیں دیا گیا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ ماضی میں ایف آئی اے ریسٹورنٹ مالکان کیخلاف تحقیقات کرچکی ہے، تحقیقات میں نکلا کہ مالکان نے کوئی جرم نہیں کیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مسٹر بخاری آر یو سیریس؟ ایف آئی اے کا اس سے کیا کام؟ لائسنس کی تجدید نہ ہونے پر ایف آئی اے سے تحقیقات کروا لیں کہ کوئی جرم نہیں ہوا، ایف آئی اے کا اس سارے معاملے پر کیا اختیار ہے؟ ۔ نعیم بخاری نے کہا کہ میرے ملک میں کئی بار جن کا اختیار نہیں تھا وہ بہت کچھ کرتے رہے، 1954 میں کیا ہوتا رہا وہ بھی سب کو معلوم ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری پیدائش سے پہلے کے واقعات بتا کرہم پر انگلی نہ اٹھائیں۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر نعیم بخاری نے کہا کہ آپ آواز اونچی کرکے سمجھتے ہیں میں ڈر جاؤں گا؟ ڈرنے والا نہیں، آپ نے خود بھٹو ریفرنس میں لکھا ماضی میں کیا ہوتا رہا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے نیشنل پارک میں جانوروں کے حقوق ہیں، ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود تھا پھر بھی آپ کمرشل سرگرمیاں کرتے رہے، آپ قوانین کی خلاف ورزی میں ریسٹورنٹ چلاتے رہے، اس پر نعیم بخاری نے کہا کہ لائسنس موجود تھا۔ سماعت کے دوران نعیم بخاری نے چیف جسٹس سے اونچی آواز میں دلائل پر معافی مانگ لی اور کہا کہ میرے چیف جسٹس مسکرا رہے ہیں، میں آواز اونچی ہونے پر معافی مانگتا ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں آپ ہم سے بڑے ہیں، بعض اوقات کیس سمجھنے کے لیے مشکل سوال پوچھنے پڑتے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے نیشنل پارک میں رہائشی سرگرمیوں کے خلاف فیصلے پرنظرثانی اپیلوں کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔