گزشتہ برس 16 اگست کو ضلع خیرپور میرس کی معروف پیروں کی حویلی واقع رانی پور میں ایک بے حد المناک اور دردناک سانحہ پیش آیا تھا۔ پیروں کی حویلی میں ملازمہ لڑکی 10 سال معصوم اور کمسن فاطمہ کو تشدد کے بعد قتل کردیا گیا تھا جس کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد سندھ بھر میں شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہونے پر ضلعی انتظامیہ، پولیس اور حکومت سندھ بھی حرکت میں آگئی۔ معصوم بچی فاطمہ کی بے حد پراسرار انداز میں ہلاکت کی ویڈیو اگر بروقت سوشل میڈیا پر وائرل نہ ہوجاتی تو یقینا معصوم فاطمہ کا خونِ ناحق اسی وقت ’’خونِ خاک نشیناں‘‘ بن کر رہ جاتا اور کبھی شاید کسی کو سانحہ کا علم بھی نہ ہوپاتا۔ اس مقتولہ بچی کی بااثر پیروں نے بغیر کسی پوسٹ مارٹم ہی کے فوری طور پر مقامی قبرستان میں تدفین کروادی تھی اور اوائل میں تو مقامی پولیس نے بھی اپنی روایتی عدم کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاں بحق ہونے والی فاطمہ کا بغیر میڈیکل یا پوسٹ مارٹم کروائے ہی کیس تک داخل دفتر کردیا تھا، لیکن مقتولہ بچی کا کیس جب سوشل، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے توسط سے ہائی پروفائل بن گیا تو بااثر پیروں کے دبائو سے دبکی سمٹی اور خوفزدہ پولیس کو بھی چارونا چار حرکت میں آنا ہی پڑا۔ اسی اثنا میں مقامی عدالت نے بھی کمسن فاطمہ کے قتل کے اصل حقائق جاننے کے لیے مقتولہ کی قبرکشائی اور پوسٹ مارٹم کروانے کا حکم نامہ صادر کر ڈالا تھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ المناک حقیقت سامنے آئی کہ مقتولہ بچی کے ساتھ قتل سے قبل کئی افراد نے نہ صرف زیادتی کی تھی بلکہ اس کے ساتھ بہیمانہ تشدد بھی روا رکھا گیا تھا۔ بچی کے چہرے اور جسم پر زخموں اور نیل کے نشانات واضح طور پر دیکھے جاسکتے تھے۔ اس کی پیشانی، کمر اور جسم کے تمام حصوں پر تشدد کیا گیا تھا۔ اس کی دونوں آنکھیں سوجھی ہوئی اور زبان دانتوں میں دبی ہوئی تھی، جو ظالمانہ تشدد کی واضح علامات تھیں۔ اس اثنا میں بذریعہ سوشل میڈیا پیروں کی حویلی میں کام کرنے والی اور وہاں کے تشدد سے بھاگ کر اپنے گھر پہنچنے والی ایک سابق ملازمہ کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں ثانیہ نامی ملازمہ نے بتایا کہ حویلی کے تمام ملازموں پر پیر اسد شاہ کی اہلیہ حنا شاہ خود بھی تشدد کیا کرتی تھی اور دوسروں سے بھی ظلم کروایا کرتی تھی۔ ثانیہ کے مطابق مقتولہ بچی فاطمہ کو اس کے سامنے بذریعہ تشدد قتل کیا گیا تھا۔ اس پر گزشتہ کئی دن سے ظلم کا سلسلہ برپا تھا۔ یہاں تک کہ بطور سزا اس کا کھانا پینا تک بند کردیا گیا تھا۔ یہ پرزور عوامی احتجاج اور سوشل میڈیا کا سخت دبائو ہی تھا کہ اس کے نتیجے میں بالآخر پولیس نے مرکزی ملزم پیر اسد شاہ، اس کی اہلیہ حنا شاہ، فیاض شاہ اور امتیاز کو گرفتار کرلیا۔ یہ اور بات ہے کہ تمام ملزمان کو مبینہ طور پر مقامی تھانوں میں بڑے اہتمام اور احترام کے ساتھ رکھا گیا تا کہ انہیں کوئی رتی برابر تکلیف یا پریشانی محسوس نہ ہوسکے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران مذکورہ ہائی پروفائل بن جانے والے کیس میں بہت سارے اُتار اور چڑھائو آئے ہیں، مقتول بچی کے والدین نے بارہا عدالت اور میڈیا کے سامنے یہ دہائی دی ہے کہ بہت زیادہ بااثر ملزمان کی جانب سے ان پر مسلسل اس کیس سے دستبردار ہونے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ ایک طرف انہیں کیس سے ہاتھ نہ اُٹھانے کی صورت میں قتل تک کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں تو دوسری جانب کیس سے دستبرداری اختیار کرنے کے صلے میں روپے پیسے اور زمین دینے کی لالچ دی جارہی ہے۔ لہٰذا ان کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے حکومت سندھ اقدامات کرے۔ واضح رہے کہ بچی کے قتل کے بعد آغاز میں پریشان حال اور خوف زدہ والدین نے یہ بیان دیا تھا کہ ہماری بچی 3 روز سے بیمار تھی اور وہ بیماری ہی سے فوت ہوئی، لیکن پولیس کی کارروائی اور سوشل میڈیا پر سانحہ کے وائرل ہوجانے کے بعد انہوں نے بھی ہمت پا کر اپنے سابقہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے یہ کہا کہ بچی تشدد سے جاں بحق ہوئی ہے اور اس کی شکایت اکثر بچی بہ وقت ملاقات کیا کرتی تھی۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے پیروں کی حویلی کے انچارج نے ان سے مقتولہ بچی کی ملاقات پر بھی پابندی عائد کررکھی تھی۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ مقتولہ بچی کے غریب والدین کو کیس سے دستبردار کروانے کے لیے کچے کے ڈاکوئوں تک نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور بذریعہ ویڈیو انہیں یہ دھمکی دی گئی کہ اگر وہ اس کیس سے دستبردار نہ ہوئے تو انہیں نشان عبرت بنادیا جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا عدالتی اور قانونی نظام کس حد تک بوسیدہ اور فرسودہ ہوچکا ہے کہ یہاں پر ایک عام فرد کے لیے حصول انصاف جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے۔
گزشتہ دنوں مذکورہ کیس میں ایک نیا تحیر خیز اور افسوسناک موڑ اس وقت در آیا جب خیرپور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں دورانِ سماعت مقتولہ کے مدعی والدین کی جانب سے 29 جون کو اے ٹی سی میں جمع حلف نامے پیش کیے گئے۔ مقتولہ کمسن ملازمہ کی والدہ نے کہا کہ ہماری بچی کی موت طبعی طور پر واقع ہوئی تھی۔ مجھ سے دستخط کرواکے سوشل میڈیا کی خبروں کے مطابق مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ حلف نامے کے مطابق گرفتار افراد بے گناہ ہیں اگر انہیں ضمانت دے دی جائے تو والدین کو کوئی بھی اعتراض نہیں ہوگا۔ دوسری جانب جج منور سلطانہ نے اس کیس کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ سکھر پہنچ کر اپنے تحریر کردہ ایک خط میں کہا ہے کہ فاطمہ قتل کیس اے ٹی سی میں چلانے کے لیے سندھ ہائی کورٹ سکھر بنچ نے احکامات صادر کیے تھے۔ سندھ ہائی کورٹ نے اے ٹی سی کو 90 روز میں فیصلہ سنانے کی ہدایت دی تھی۔ لہٰذا اب سکھر بنچ رہنمائی کرے کہ کیس کو کس عدالت میں چلایا جائے۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے اپنے خط میں یہ مقدمہ اے ٹی سی ہی میں چلانے کی سفارش بھی کی ہے۔ قبل ازیں اے ٹی سی نے اس کیس کے 5 گواہان اجالا، ثانیہ، صغیر، محمد حسن اور نصیر احمد کی جانب سے اپنے سابقہ بیانات سے انحراف کی وجہ سے فاطمہ قتل کیس میں سے دہشت گردی کی شامل دفعات کو ختم کرکے اسے گواہوں کے موجودہ بیانات کی روشنی میں سیشن کورٹ خیرپور منتقل کردیا تھا۔ دوسری جانب سندھی اخبارات اور میڈیا کے مطابق مقتولہ کا والد ندیم تاحال اس موقف پر برقرار ہے کہ رانی پور کے پیروں کی حویلی کے مالکان نے اس کیس کی ایک مرکزی گواہ زرینہ جانوری کو مبینہ طور پر مروا ڈالا ہے اور گواہان کے عدالت میں دیے گئے یہ بیانات درست نہیں ہیں کہ مقتولہ فاطمہ کے قتل میں گرفتار ملزمان بے گناہ ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پھر مقتولہ بچی کے والدین کے اے ٹی سی میں داخل کردہ اس حلف نامے کی کیا حیثیت ہے جس میں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ گرفتار ملزمان بے گناہ ہیں، اگر انہیں ضمانت دی جائے تو اس صورت میں انہیں کوئی بھی اعتراض نہیں ہوگا۔ علاوہ ازیں بذریعہ میڈیا مقتولہ بچی فاطمہ کی والدہ کے یہ بیانات بھی سامنے آئے ہیں کہ اگر ہمیں انصاف نہ ملا تو ہم خودسوزی کرلیں گے۔ ایسے میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ اندرون خانہ بچی فاطمہ کے والدین پر بااثر ملزمان کو دھمکیوں، ترغیب اور تحریص کے ذریعے عدالت میں مذکورہ حلف نامہ داخل کرانے پر مائل کیا گیا ہوگا۔
سندھی اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ کمسن مقتولہ فاطمہ کے خونِ ناحق کا سودا 6 کروڑ روپے میں کیے جانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
ایک سندھی اخبار کے مطابق مقتولہ بچی کے والد ندیم کا کہنا ہے کہ اسے کچھ روپے ملے تو ہیں لیکن پتا ہیں وہ کتنے ہیں، ایک لاکھ روپے ہیں یا پھر دو لاکھ روپے، مجھے کچھ بھی علم نہیں ہے۔ کیسا ظلم ہے اور کیسی اندھیر نگری ہے؟ تمام تر شواہد، پولیس سرجن امان اللہ بھنگوار، پوسٹ مارٹم کی رپورٹ، ڈی آئی جی سکھر کے تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ، سوشل میڈیا پر مقتولہ بچی فاطمہ کے درد اور کرب سے تڑپنے کی وائرل شدہ ویڈیو اور تمام رپورٹس کے باوصف بے گناہ مقتولہ بچی فاطمہ کے بااثر قتل میں بااثر ملزمان کی مستقبل میں اس کیس سے باعزت طور پر بری ہونے کے امکانات پر شدید تحفظات اور خدشات کا عوامی سطح پر اظہار کیا جارہا ہے۔ آخر ہماری عدالتیں فراہمی انصاف میں کب کامیاب ہوں گی؟ کیا ایک اور خون خاک نشیناں زرق خاک ہونے کو ہے؟ ان سوالات کے جوابات اگر کسی کے پاس ہیں تو وہ ضرور دے۔