قیصر بنگالی کے مزید انکشافات

354

جس روز حکومت کے مشیرڈاکٹر قیصر بنگالی نے استعفا دیا تھی اسی روز حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ڈاکٹر قیصر بنگالی کی معلومات درست نہیں ہیں اور وہ جو کچھ کہ رہے ہیں وہ غلط ہے ،اگر حکومت کی یہ بات مان بھی لی جائے تو اس پر یہ سوال تو ہونا چاہیے کہ پھر حکومت کی صلاحیت کیا ہے اس نے کم معلومات والے فرد کو مشیر کیوں بنا یا تھا ،ظاہر ہے اس پر قیصر بنگالی کیوں خاموش رہتے انہوں نے مزید باتیں بتادیں، انہوں نے باتیں کیا بتائیں حکومت کے دعوؤں کا پردہ چاک کردیا، کراچی میں پریس کانفرنس میں انہوں نے ملکی معیشت کی بہتری کے دعووں کو غلط ثابت کرتے ہوئے حکومت کے شاہانہ اخراجات پر سوالات اٹھا دیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں، ملک دیوالیہ ہونے کو ہے اور معیشت ڈوب رہی ہے لیکن اسلام آباد جاؤ تو لگتا ہے کہ سب نارمل ہے‘ معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور قرض کے وینٹی لیٹر پر زندہ ہے تاہم اب آئی ایم ایف اور دیگر دوست ممالک بھی مزید قرضے دینے سے گریزاں ہیں اور نجکاری کا عمل بھی تعطل کا شکار ہے، کیونکہ کوئی بھی سرکاری اداروں کے لیے بولی نہیں دے رہا۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ وزیراعظم کی تشکیل کردہ ہائی پاورڈ کمیٹی سے استعفا دینے پر کچھ باتیں واضح کرنا چاہتا ہوں مجھ سے پہلے حفیظ پاشا اور ڈاکٹر عشرت حسین کی حکومتی اخراجات کم کرنے کی کمیٹی کی سفارشات پر بھی عمل نہیں ہوا اب ہماری سفارشات بھی نہیں سنی جا رہی تھیں کہا جاتا تھا کہ آپ کی بات نوٹ کرلی ہے ، کمیٹی میں شامل چند وفاقی وزرا اور ایم این ایز نہیں چاہتے تھے کہ وزیر اعظم ہماری سفارشات کو سنیں یا عمل کریں۔ویسے وزیر اعظم سفارشات سن بھی لیتے تو انہیں کیا سمجھ میں آتا اور وہ کیا عمل کرتے قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ 70 محکمے بند کرنے کی سفارش پر حکومت نے صرف ایک ادارہ بند کرنے کا فیصلہ کیا‘اس حکومتی تضاد کے بعد اس کے دعووں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے،ڈاکٹر قیصر نے تو پچھلے دعووں کا بھی آپریشن کردیا اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ حکومت میں معیشت چلانے کی صلاحیت ہے نہ اس کی اصلاح کی خواہش۔انہوں نے بتایا کہ تنظیم نو کی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی میں پہلے ٹیکنیکل لوگ تھے‘ پھر کمیٹی میں 2 وفاقی وزرا اور سیاسی لوگوں کو شامل کردیا گیا، تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ وفاقی وزرا اور سیاسی لوگوں کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔ دوسری جانب حکومت کے پاس اس الزام کا کوئی جواب نہیں ہے کہ حفیظ پاشا اور ڈاکٹر عشرت حسین کی سفارشات پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ جن اداروں کی بندش کا ڈاکٹر قیصر نے ذکر کیا ہے وہ ادارے بند کرنے سے 33 ارب روپے کے آپریشنل اخراجات بچائے جاسکتے تھے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اخراجات کم کرنے کی حکومت کی نیت ہی نہیں ہے، سیاسی لوگوں اور وزرا اور اداروں کے سربراہان کے ذاتی مفادات ہیں‘ اس کا اندازا اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کفایت شعاری کمیٹی یعنی وفاقی حکومت کی تنظیم نو کے لیے ہائی پاورڈ کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر خزانہ ہیں‘ کمیٹی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ایم این ایز بھی ہیں‘ چنانچہ کمیٹی نے جائزہ لیے گئے 70 سرکاری اداروں میں سے صرف ایک کو بند کرنے کی سفارش کی ہے جبکہ انہوں نے 17 تجارتی اداروں کی نجکاری اور 52 سرکاری اداروں کو برقرار رکھنے کی تجویز دی تھی۔اس کا تو وقت ہی بتاتا ہے کہ ایسے فیصلے کون کروارہا ہے ، فی الحال تو پردہ پڑا ہے۔ پاکستان جن حالات سے گزررہا ہے ان میں تو حکومت کی اولین ترجیح مالیاتی خسارے کو روکنا ہونی چاہیے جو معیشت اور ملک کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ محکمے ختم کرنے کے بجائے کمیٹی کا زور تقریباً تمام سرکاری اداروں کو برقرار رکھنے پر ہے، اور اس کے بجائے تقریباً ڈیڑھ لاکھ چھوٹے ملازمین ( بی پی ایس 1 سے 16 تک) کی اسامیوں کو ختم کرنے اور یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کی نجکاری کی سفارش کردی گئی ہے اس سے بے چینی الگ بڑھ رہی ہے ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اس اقدام کو بھی چیلنج کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ‘‘تنظیم نو’’ کا پورا بوجھ معاشرے کے کم آمدنی والے طبقے پر ڈالا جا رہا ہے اور اس میں کسی بھی بڑی پوسٹ والے سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری، ڈائریکٹر جنرل وغیرہ کی اسامیوں کے خاتمے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کمیٹی کو پیش کی گئی اپنی تفصیلی رپورٹ میں انہوں نے 17 ڈویژنز اور تقریباً 50 سرکاری اداروں کو ختم کرنے کی سفارش کی تھی جس سے بی پی ایس 20 سے 22 کی ایک بڑی تعداد میں کمی واقع ہوتی۔ حکومت کی اس غیر سنجیدگی کی وجہ سے بہت سے غیر ملکی سرمایہ کار ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں جو کہ ریورس ایف ڈی آئی ہے۔ڈاکٹر قیصر نے ہر شعبے کا ذکر کیا ہے انہوں نے ٹیکس وصولی کی انتہائی جارحانہ کوششوں کو بلیک میلنگ کی حد تک طریقوں کے استعمال پر بھی تنقید کی اور کہا کہ معیشت ساختی طور پر کمزور ہے اور مزید آمدنی پیدا نہیں کر سکتی۔ انہوں نے دہرایا کہ بڑے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کا جواب حکومت کے موجودہ اخراجات میں کمی کرنا ہے، جس میں غیر جنگی دفاعی اخراجات بھی شامل ہیں۔مالی سال 2023-24 کے نظرثانی شدہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ کل مجموعی ٹیکس اور غیر ٹیکس محصولات 12 ٹریلین روپے اور کل موجودہ اخراجات 14 ٹریلین روپے تھے، جس سے 2 ٹریلین روپے کا فرق رہ جاتا ہے جو کہ اخراجات میں کمی کا ہدف ہے۔ حکومت اسی طرح اور فیصلے بھی کررہی ہے اس میں پاکستان جیمز اینڈ جیولری کمپنی اور پاکستان جیمز اور جیولرز اتھارٹی کے معاملات بھی ہیں ، انہیں بند کرنے کے بجائے وزارت پیٹرولیم کے ماتحت کرنے کا کہا گیا ہے جو بڑا عجیب لطیفہ ہے کسی عام آدمی کی سمجھ میں بھی یہ بات نہیں آتی اور ڈاکٹر قیصر نے بھی یہی کہا ہے کہ یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔حکمراں طبقہ ڈاکٹر قیصر بنگالی کو غلط ثابت کرنے کے بجائے اپنے وعدوں اور دعوئوں کو درست ثابت کرنے پر توجہ دے تو زیادہ بہتر ہو گا۔