مسلم معاشروں کی قوت کا ایک سرچشمہ خاندان بھی ہے۔ چنانچہ اس کی پوری کوشش یہ ہے کہ اس سرچشمے پر حملہ کیا جائے اور جس طرح کی صنفی جنگ (War of sexes) مغرب میں جاری ہے اس طرح کی جنگ مسلم معاشروں میں بھی برپا کردی جائے۔
تحریکِ آزادیِ نسواں کی اکثر علَم برداروں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اگر اتفاق سے وہ مرد ہوتیں تو پھر انھیں خواتین سے اسی طرح کی شکایتیں ہوتیں جس طرح کی شکایتیں اب انھیں مردوں سے ہیں، چنانچہ پھر وہ خود کو خواتین کے خلاف تحریک چلانے پر مجبور پاتیں۔
یہ بات کوئی طنز نہیں ہے۔ شکایت کی نفسیات ایک حقیقت ہے۔ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دے رکھا ہے لیکن اس کے باوجود وہ شکایتوں کا چلتا پھرتا دفتر ہیں۔ اس کے برعکس وہ لوگ ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں، لیکن انھیں یا تو کسی سے شکایت ہی نہیں، اور اگر ہے بھی تو بہت ہلکی پھلکی سی۔ اتنی ہلکی پھلکی کہ اسے شکایت کہنا بھی محال نظر آتا ہے۔
انسانوں کی بہت سی اقسام ہیں اور ان کی درجہ بندی کے کئی پیمانے ہیں۔ انسانوں کی ایک قسم وہ ہے جو ”لینے“ سے زیادہ ”دینے“ پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ”دینے“ سے زیادہ ”لینے“ پر مائل ہوتے ہیں۔ یہ دراصل لوگوں کا روحانی، نفسیاتی اور جذباتی ”رخ“ ہے جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ وہ ”دینے“ پر زیادہ یقین رکھتے ہیں یا ”لینے“ پر۔ دینے اور لینے کی یہ بات مال و دولت تک محدود نہیں، کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محبت کرنے کا زیادہ مادّہ رکھتے ہیں، البتہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنھیں صرف چاہے جانے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ چاہے جانے کو اپنا حق سمجھ لیتے ہیں۔ وہ فرض کرلیتے ہیں کہ ان میں فلاں فلاں خصوصیات ہیں اور اس کی بنا پر وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انھیں چاہا جائے۔ وہ کسی کو چاہتے بھی ہیں تو صرف اس لیے کہ وہ انھیں چاہتا ہے۔ غور کیا جائے تو سارے مسائل انھی امور کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ جو لوگ ”دینے“ پر زیادہ یقین رکھتے ہیں انھیں شاذ و نادر ہی کسی سے شکایت ہوتی ہے۔ البتہ جو لوگ دینے سے زیادہ لینے پر یقین رکھتے ہیں یا صرف لینے ہی پر یقین رکھتے ہیں انھیں لوگوں سے بہت زیادہ شکایتیں لاحق ہوجاتی ہیں۔ جو خواتین ہمارے یہاں تحریکِ آزادیِ نسواں کا حصہ ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ یہ ان کی ”اعلیٰ تعلیم“ اور ان کا ”شعور“ ہے جس نے انھیں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کا حصہ بنایا۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو، لیکن اس سلسلے میں ان کی شخصیت کا روحانی، نفسیاتی اور جذباتی پہلو اُن کی تعلیم اور اُن کے نام نہاد شعور سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ بیماریاں انسان کی ڈگریاں نہیں دیکھتیں، یہ دیکھتی ہیں کہ اس کی قوتِ مدافعت کمزور ہے یا نہیں۔ قوتِ مدافعت کمزور ہو تو پھر بیماری حملہ آور ہوجاتی ہے۔ ویسے اس سلسلے میں جس تعلیم اور جس شعور کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے وہ بجائے خود ایک مستعار تعلیم اور مستعار شعور ہے، اور ان میں شکایت کے مرض کے تمام جراثیم موجود ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریکِ آزادیِ نسواں شکایت کی نفسیات کی عکاس ہے، اور یہ ہم نے ابھی عرض کیا کہ شکایت کی نفسیات کی پشت پر ”لینے“ کی خواہش غالب ہوتی ہے۔
مغربی فکر نے تیسری دنیا اور خاص طور پر مسلم معاشروں میں اور چیزوں کی طرح ایک ہولناک کام یہ کیا ہے کہ اس نے ہماری اپنی چیزوں کو ہمارے لیے ناقابلِ اعتبار بنادیا۔ مثال کے طور پر مغربی طب نے ہمیں بتایا کہ اصل علم، طریقہ تشخیص اور ادویہ تو اس کے پاس ہیں۔ یہ حکمت، طبِ یونانی و طبِ اسلامی وغیرہ تو کھلا دھوکا ہیں۔ نتیجہ یہ کہ حکیم اور اطباء ہماری نظروں میں بے توقیر ہوگئے۔ چلیے حکمت اور حکیم واقعتاً کھلا دھوکا ہوں گے، لیکن حکیموں کو بے توقیر کرنے والوں نے اُن کی جگہ ڈاکٹروں کا بندوبست نہیں کیا۔ نتیجہ یہ کہ ہم حکیموں اور ڈاکٹروں دونوں سے محروم ہوگئے۔ تحریکِ آزادیِ نسواں کا نتیجہ بھی کچھ ایسا ہی نکلے گا۔ ہماری خواتین مردوں اور خاندان سے بھی محروم ہوجائیں گی اور انھیں وہ آزادی بھی نصیب نہیں ہوگی جو اس تحریک کا نصب العین ہے۔ ایسا کیوں ہوگا؟ اس کی وجہ بالکل عیاں ہے۔
مغربی فکر خواتین کی آزادی کا جو تصور پیش کررہی ہے اس میں معاشی خودمختاری کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ خواتین چونکہ اپنی ضروریات کے لیے مردوں پر انحصار کرتی ہیں اس لیے وہ اپنے حقوق اور آزادی کا تحفظ نہیں کرپاتیں۔ تاہم جب خواتین معاشی طور پر خودمختار ہوجاتی ہیں تو پھر وہ مکمل یا بڑی حد تک آزاد ہوجاتی ہیں۔ یہ بات مخصوص دائرے میں ایک حد تک درست ہے، لیکن یہاں ایک بہت بڑا عملی مسئلہ ہمارے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔
مغربی ممالک کی معیشتیں مستحکم ہیں، وہاں روزگار کے وسیع مواقع موجود ہیں، چنانچہ وہاں خواتین کی معاشی خودمختاری کا امکان موجود ہے، لیکن ہمارے معاشروں کے جو معاشی حالات ہیں ان میں خواتین کی آبادی کے ایک چھوٹے سے حصے کے لیے بھی معاشی خودمختاری کا امکان موجود نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خواتین کی اکثریت کے لیے آزادی کے حصول کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس تناظر میں بھی دیکھا جائے تو تحریکِ آزادیِ نسواں معروضی حالات کے مطابق نہیں، اور اسے دراصل ہمارے یہاں اُس وقت شروع کیا جانا چاہیے جب ہمارے اقتصادی حالات مغربی دنیا کے اقتصادی حالات کے ہم پلہ ہوجائیں۔ ورنہ اس تحریک کے زیراثر آنے والی خواتین پہلے سے دستیاب زندگی سے بھی محروم ہوجائیں گی اور نئی زندگی بھی ان کا مقدر نہیں بن سکے گی۔ لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مذکورہ تحریک ادراک اور اعتراف کرنے پر تیار نہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ مغرب میں کہا جاتا ہے کہ صنفی امتیاز غلط ہے، اصل مسئلہ انسان کا ہے اور خواتین بھی انسان ہیں۔ یہ بات سو فیصد سے زیادہ درست ہے، لیکن اگر ایسا ہی ہے تو پھر انسان پر انسان کے ظلم کے بجائے خواتین پر مردوں کے ظلم کا نعرہ کیوں لگایا جاتا ہے؟ اور کیوں یہ بات تسلیم نہیں کی جاتی کہ اصل مسئلہ کسی کو کسی کے چنگل سے نکالنے کا نہیں بلکہ باہمی محبت واحترام کا تعلق استوار کرنے کا ہے۔ دراصل مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسلم معاشروں کی قوت کے سرچشموں کا سراغ لگاتا رہتا ہے اور اس کوشش میں اُس پر یہ حقیقت عیاں ہوئی ہے کہ مسلم معاشروں کی قوت کا ایک سرچشمہ خاندان بھی ہے۔ چنانچہ اس کی پوری کوشش یہ ہے کہ اس سرچشمے پر حملہ کیا جائے اور جس طرح کی صنفی جنگ (War of sexes) مغرب میں جاری ہے اس طرح کی جنگ مسلم معاشروں میں بھی برپا کردی جائے۔