سید علی گیلانی امت مسلمہ کے عظیم رہنما

188
Abdul Rashid Turabi

ریاست جموں وکشمیر کی تاریخ حریت میں سید علی گیلانی کا نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا اس لیے کہ انہوں نے اوّل روز ہی سے بھارت کے استعماری عزائم کا ادراک کرتے ہوئے ہر محاذ پر آواز حق بلند کی، قوم کو بیدار کرنے کے لیے شب و روز جدوجہد کی، بالخصوص نوجوانوں میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت پیدا کرنے کے لیے اپنی گفتگو و کردار کو رول ماڈل کی حیثیت سے پیش کیا۔

اہل کشمیر کی تحریک آزادی بڑے حادثات سے دوچار ہوئی جن میں سب سے بڑا المیہ تحریک آزادی کے ایک بڑے لیڈر اور ہیرو شیخ عبداللہ نے 1947ء میں بر صغیر کی تقسیم کے تاریخ ساز عمل کے موقع پر اپنے ذاتی رحجانات اور مصالح کی وجہ سے کشمیر کو بھارت کی گود میں ڈالنے کی سہولت کاری کر کے تاریخی جرم کا ارتکاب کیا۔ بعد میں ان کے اپنے ہی دوست جواہر لعل نہرو کی توتا چشمی کی وجہ سے وہ اقتدار سے محروم ہو کر قید کر دیے گئے تو انہیں رائے شماری کا نعرہ یاد آگیا اور بھارت کو ڈرانے یا لبھانے کے لیے مسئلہ کشمیر کو حل طلب مسئلہ قرار دیا۔ اہل کشمیر اور پاکستان نے انہیں شیر کشمیر قرار دیا۔ کشمیری انہیں خدائی اوتار سمجھ کر ان کی اندھی تقلید کرتے رہے۔ ایسے حالات میں شیخ عبداللہ کے سحر کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے تضادات کو آشکارا کرنا اور قوم کو بھارتی استعمار اور ان کے سہولت کاروں کی سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے ہتھکنڈوں کے توڑ کے لیے تیار کرنا جان جوکھم کا کام تھا جو سید علی گیلانی اور ان کے رفقاء نے سرانجام دیا۔ جماعت اسلامی کے اجتماعات ہوں، عوامی جلسے ہوں یا اسمبلی فلور ہو ہر پلیٹ فارم پر انہوں نے آزادی و حریت کا نعرہ مستانہ بلند کیا، استعماری حربوں کے پردے چاک کیے اور نوجوانوں کو روح اقبال سے شناسا کرنے کے لیے قرآن، حدیث، اسلامی تاریخ اور کلام اقبال کے ذریعے عظیم الشان اور ہمہ گیر جہاد کے لیے تیار کیا۔ یہ اسی فکری انقلاب کا نتیجہ ہے کہ آج اقتدار پرست سیاسی رہنماہوں یا مسند نشین تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ بھارتی اقتدار کو کندھا دینے والے بڑے سے بڑے لیڈر کے جنازے سے زیادہ عام شہید کے جنازے میں ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی شرکت اور برہان وانی جیسے عظیم کردار کو اپنا رول ماڈل قرار دینا ایک بہت بڑا نقلاب ہے جو سید علی گیلانی کی فکر، جرأت اور استقامت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں پیدا کیا۔ کسی مغلوب و غلام قوم کی پہلی منزل ذہنی غلامی سے آزادی ہوا کرتی ہے جو اہل کشمیر بحمدللہ حاصل کر چکے ہیں۔ کشمیر کا بچہ بچہ آج بھارتی استعمار اور اس کے سہولت کاروں سے نفرت کرتا ہے۔ آئے روز ہم ویڈیو کلپس کے ذریعے ایسے منظر دیکھتے رہتے ہیں کہ پانچ، سات سالہ بچے پتھر ہاتھ میں لیے بھارت کے بکتر بند دستوں کو للکار رہے ہیں اور گو انڈیا گو بیک کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ یہ محض نعرے نہیں ہیں بلکہ غلامی کا قلاوہ اتار پھینکنے والی نسل نو کے عزم کا اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چار سالہ مودی حکومت کے ریاستی اور مسلم تشخص ختم کرنے کے لیے کیے گئے پے در پے اقدامات کے باوجود بھارتی اہل دانش و تھینک ٹینکس حکومت کو خبردار کر رہے ہیںکہ روا رکھے جانے والے مظالم اور ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیری ڈرنے یا دبنے کے بجائے بھارت سے مزید متنفر ہو چکا ہے۔ بظاہر خاموشی کی تہوں میں ایک بڑا نقلاب انگڑائی لے رہا ہے جس کی لہروں کو روکنا بھارت کے بس سے باہر ہوگا۔ Concerned Indian Citizen Forum کی تازہ ترین رپورٹ اس حوالے سے انتہائی چشم کشا ہے۔ اس لیے رپورٹ میں بھی ایک مرتبہ حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ کشمیریوں کے تحفظات اور شکایات دور کرنے کے لیے ان سے با مقصدبات چیت کا اہتمام کرے۔

مختصر یہ کہ آزادی حریت کی لہروں کا طلاطم برپا کرنے میں یوں تو سب حریت پسند قائدین، مجاہدین شہداء، اور مزاحمت کاروں کا حصہ ہے لیکن زیادہ نمایاں کردار سید علی گیلانی شہید کا ہے جس طرح علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوںکو ذہنی غلامی سے نجات دلانے کے لیے اپنے کلام کا سہارا لیا اور بالآخر آزادی کی لہر قائد اعظم کی قیادت میں آزادی کی منزل سے ہمکنار ہوئی۔ اسی طرح ملت اسلامیہ کشمیر کو ذہنی غلامی سے نجات دلانے کے لیے فکری انقلاب برپا کرنے کے ساتھ ساتھ عملی قیادت کے ذریعے ایک ایساکردار رہتی دنیا تک پیش کیا جس پر اہل کشمیر ہی نہیں پوری امت مسلمہ فخر کرتی رہے گی۔ بلا شبہ وہ حتمی آزادی کی منزل اپنی زندگی میںنہ دیکھ سکے لیکن یہ نوشتہ دیوار ہے۔ ان کا برپا کردہ انقلاب اہل کشمیر کو آزادی کی منزل سے ضرور ہم کنار کرے گا۔ ان شاء اللہ۔ لیبیا کی تحریک کے عظیم مجاہد ہیرو عمر مختار 1931ء میں پھانسی چڑھا دیے گئے لیکن ان کی شہادت لیبیا کے مسلمانوں میں آزادی کی ایسی شمع فروزاں کر گئی جس کے نتیجے میں پندرہ بیس برس بعد اٹالین استعمار کو اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا اور لیبیا آزادی سے ہم کنار ہوا۔ سید علی گیلانی کا قافلہ بھی منزل سے ہم کنار ہو کر رہے گا، ان شاء اللہ۔

سید علی گیلانی اہل کشمیر کے ہی رہنما نہ تھے بلکہ وہ پاکستانی سیاست دانوں سے زیادہ نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والے، اس کے پرچارک اور اس کے محافظ تھے۔ ان کی حیات میں جب بھی ان سے فون پر بات ہوئی وہ اپنے مصائب کا رونا رونے کے بجائے پاکستان کے حالات پر فکر مند رہتے تھے۔ پاکستانی حکمرانوں کی دہشت گردی کے نام پر امریکی جنگ میں شرکت کی وجہ سے ملک جب خانہ جنگی کا شکار ہوا تو گیلانی صاحب نے سخت اضطراب کا اظہار کیا۔ جنرل پرویز مشرف جو آغاز میں ان کا بہت احترام کرتے تھے گیلانی صاحب کی توجہات اور گرفت کی وجہ سے ان سے ناراض ہو گئے۔ بعد میں چار نکاتی فارمولے پر بھی انہوں نے برملا اختلاف کیا جس کے نتیجے میں سازش کر کے حریت کانفرنس کو تقسیم کیا گیا، گیلانی صاحب کا سرکاری ذرائع ابلاغ میں بائیکاٹ کر دیا گیا۔ ان ساری کیفیات کے باوجود گیلانی صاحب نے رد عمل میں نہ کوئی بیان دیا اور نہ کوئی پالیسی ہی بنائی بلکہ سرینگر کے لاکھوں کے جلسے میں پاکستان کو امت مسلمہ کا قلعہ قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا عظیم عطیہ قرار دیا اور مشہور نعرہ لگایا کہ ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘۔

آج جنرل مشرف کو تاریخ اور عامتہ الناس کس نظر سے دیکھتے ہیں اور گیلانی صاحب کا کیا مقام ہے؟ ہر فرد تقابل و تجزیہ کر سکتا ہے، امت کے حقیقی ہیرو لوگوں کے دلوں میں زندہ اور محترم رہتے ہیں۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ان کے نام سے ایک جعلی تحریر پھیلائی گئی کہ گیلانی صاحب نے کسی اور نظریے کی بات کی ہے جو قطعاً خلاف حقیقت ہے۔ اس تحریر میں بے ربط جملے اور منتشر الفاظ ہی خود جعل سازی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ گیلانی صاحب کا دل پوری امت کے لیے دھڑکتا تھا۔ وہ فلسطین کا مسئلہ ہو یا عراق و افغانستان میں دہشت گردی کی جنگ کے نام پر مسلمانوں پر مظالم ہوں، اراکان کے مسلمانوں پر برمی حکومت کے مظالم ہوں یا بھارتی استعمار کی طرف سے بھارتی مسلمانوں کا قتل عام، مصرو بنگلا دیش میں اسلامی تحریک کے خلاف ریاستی دہشت گردی ہو یا ناموس رسالت ؐ اور یورپ میں توہین قرآن کے واقعات ہر موقع پر گیلانی صاحب امت مسلمہ کے ایک عظیم قائد اور ترجمان کی حیثیت سے سامنے آئے اور مسلم جذبات کی ترجمانی کی۔ اسلام کی ہی آفاقی فکر مطلوب ہے جو مرد مومن میں ہونا چاہیے جس کا کمال اہتمام گیلانی صاحب کی شخصیت کا طرہ تھا۔

سید علی گیلانی صاحب کے ساتھ چار دہائیوں پر محیط ذاتی تعلق کی بنیاد پر میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ پر توکل رکھنے والے اللہ کے ایسے ولی تھے جسے کوئی جبر و لالچ اپنے موقف سے سرمو منحرف نہ کر سکا۔ ملاقاتوں اور مشاورت میں بھی اور مواصلاتی روابط کے موقع پر بھی ہمیشہ انہیں پر امید پایا۔ وہ قطعاً حالات کے جبر سے نہ کبھی مایوس ہوئے نہ مایوسی پھیلائی بلکہ ہمیشہ امید کا چراغ فروزاں رکھا۔ کسی قوم کے لیڈر کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ نامساعد حالات میں حق و صداقت کی راہ پر مستقیم رہے اور عزم وہمت کے دیے جلاتا رہے۔ سید علی گیلانی ان خوبیوںکا سراپا تھے۔ گیلانی صاحب علامہ صاحب کے اس شعر کی مجسم تصویر تھے ؎

نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

اللہ تعالیٰ انہیں شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز فرمائے اور ان کے مجاہدانہ اوصاف کی تقلید کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جلد کشمیر کو آزادی کی نعمت سے ہم کنار کرے۔ آمین۔