حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی پاکستان کی اپیل پر 28 اگست بروز بدھ پورے ملک میں پر امن ہڑتال ہوئی جس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ تاجر برادری نے بھرپور ساتھ دیا اور پورے ملک میں مکمل شٹر ڈائون رہا ہمیں افسوس ہے کہ بعض صحافی اور اینکرز اس ہڑتال کے حوالے سے حافظ نعیم کی جدوجہد کو سراہنے کے بجائے حافظ صاحب اور جماعت اسلامی کی کوششوں کو دوسروں سے کم ظاہر کرنے کے لیے تجزیے اور تبصرے پیش کررہے ہیں ایسے تاجر رہنمائوں کے خیالات پیش کیے گئے جن کا کہنا یہ تھا یہ ہماری اپنی ہڑتال اس میں کسی سیاسی جماعت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ حالانکہ پورا ملک جانتا ہے کہ جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں جو دو ہفتوں کا دھرنا دیا اور حکومت سے ایک تحریری معاہدے کے تحت اس دھرنے کو ختم نہیں بلکہ معطل کیا اور حکومت کو مطالبات تسلیم کرنے کے لیے 45 دن کا وقت دیا لیکن اسی وقت انہوں نے اپنے اگلے پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج 8 اگست کو ایکسپریس وے پر 12 اگست کو پشاور اور 16 اگست کو ملتان میں جلسے ہوں گے، اس کے بعد ہم کسی وقت بھی ملک گیر ہڑتال کی کال دے سکتے ہیں پھر بعد میں 28 اگست کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ لیکن آپ حافظ نعیم الرحمن کا حوصلہ دیکھیے انہوں نے کیپٹل ٹاک میں حامد میر کے اس سوال کے جواب میں تاجر تنظیمیں کہہ رہی ہیں کہ یہ ہڑتال خالص تاجر تنظیموں کی اپیل پر ہوئی کہا کہ ہر ہڑتال کے موقع پر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ تاجر تنظیموں میں دو گروپ بنا دیے جائیں اس دفعہ بھی یہی کوشش کی گئی لیکن ہمارے تاجر رہنمائوں نے اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کی اس اسکیم کو ناکام بنادیا انہوں نے یہ بھی کہا کہ بجلی کے بلوں میں کمی کی جائے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کم کیا جائے اور تاجروں کی عوام دوست اسکیم جو دراصل تاجر دشمن اسکیم ہے ختم کیا جائے انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت عوام کے ان مطالبات کو تسلیم کرکے عوام کو ریلیف فراہم کرے ہمیں کامیاب ہڑتال کا کوئی کریڈٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
8 اگست کو دھرنے کے اختتام پر نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے جماعت اسلامی اور حکومت کے درمیان دستخط شدہ معاہدہ دھرنے کے شرکاء اور میڈیا کے سامنے پڑھا اس موقع پر وفاقی وزیر محسن نقوی اور عطا تارڑ نے بھی دھرنے کے شرکاء سے خطاب کیا۔ معاہدے میں طے پایا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئی پی پیز معاہدوں پر مکمل نظر ثانی کی جائے گی اور اس سلسلے میں حکومت اور ماہرین پر مشتمل ٹاسک فورس تشکیل دی جائے گی جو ایک مہینے میں اپنی سفارشات دے گی اور ٹاسک فورس کی ذمے داری ہوگی کہ سفارشات پر عملدرآمد کرائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر جاگیرداروں پر انکم ٹیکس کے نفاذ کا نظام واضح کریں گی، تاجروں پر ٹیکس کے نظام کو سہل بنایا جائے گا اسی طرح تنخواہ داروں پر ٹیکس کو ہر صورت میں کم کیا جائے گا، بجلی کے بلوں میں فی یونٹ کمی کی جائے گا، اور آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی کی صورت میں کیپسٹی چارجز کم کرکے اسے عوامی ریلیف میں تبدیل کیا جائے گا، اس حوالے سے 45 دن پر معاہدے پر عملدرآمد ہوگا۔ معاہدوں پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے جماعت اسلامی اور حکومتی بنچوں کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس سے قبل حافظ نعیم الرحمن نے راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ہمارے تمام مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے اس سے کم پر کوئی بات نہیں بنے گی۔ ہم کوئی خیرات مانگنے نہیں آئے ہیں اپنا حق لینے آئے ہیں۔ ہم پرامن طریقے سے اپنی آئینی جدجہد کررہے ہیں ہمارے دھرنے کا اولین مقصد لوگوں کو ریلیف دلانا ہے۔ حکومت ہمارے مطالبات سے اتفاق رکھتی ہے لیکن جب تجاویز دی جاتی ہیں تو یہ دائیں بائیں ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
31 جولائی کو ایک مضمون عوامی مسائل پر پہلا دھرنا کے عنوان سے لکھا تھا جس میں پچھلے دھرنوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ تمام دھرنے کسی خفیہ قوت کے اشارے پر دیے گئے تھے اور جب ان کے مقاصد پورے ہو گئے تو دھرنا ختم کرادیا گیا ان دھرنوں میں پارٹیوں کے اپنے سیاسی مقاصد تھے ان میں عوامی مسائل پر کوئی بات نہیں کی گئی تھی لیکن جماعت اسلامی کا یہ دھرنا خالص عوامی مسائل کے حوالے سے تھا اور جماعت کی اپنی شوریٰ کے فیصلے کے تحت ہوا تھا یہ دھرنا کسی کے اشارے پر نہیں تھا۔ حافظ نعیم جب کراچی کے امیر بنے تو انہوں نے کراچی کے سلگتے مسائل اور عوامی ایشوز کو اپنی دعوت کے فروغ دینے کا ذریعہ بنایا۔ رضائے الٰہی کا حصول بھی اس کے بندوں کی خدمت سے ہوکر گزرتا ہے۔ حافظ صاحب نے کراچی میں کون سا ایسا مسئلہ ہے جس پر آواز نہ اٹھائی ہو۔ کے الیکٹرک کراچی کے عوام پر جو ظلم کررہی ہے حافظ نعیم الرحمن نے پوری قوت سے اس کے خلاف بھرپور مہم چلائی اور بہ حیثیت مجموعی حق دو کراچی کو، کا نعرہ زبان زد عام ہوگیا اور اب جب سے وہ پاکستان کے امیر بنے ہیں انہوں عوام کے مسائل کو جس میں بجلی کا مسئلہ سرفہرست ہے پوری قوت سے اٹھایا ہے اور اب وہ حق دو عوام کو، کے نام سے مہم چلا رہے ہیں یہ دو ہفتوں کا دھرنا اور بڑے شہروں میں بھرپور عوامی جلسے اس لیے منعقد کیے گئے کہ دھرنے میں حکومت نے جو تحریری معاہدہ کیا ہے اس سے اس کو پیچھے نہ ہٹنے دیا جائے اور وہ مومینٹم برقرار رہے جو دھرنے کے دوران تھا۔ پچھلے بدھ کی ہڑتال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی تاکہ حکومت پر دبائو برقرار رہے۔ ٹیکس کے حوالے سے ایک تاجر رہنما یہ بتارہے تھے کہ کاروبار کی جو صورتحال ہے اس میں ہمیں پہلے ہی ٹیکس دینا مشکل ہورہا ہے نہ کہ اب ہم پر ایڈوانس ٹیکس کا ظالمانہ اور نا انصافی پر مبنی نظام ٹھونسا جارہا ہے کہ جس کی ایک کروڑ روپے کی دکان ہے اسے دس فی صد ایڈوانس انکم ٹیکس دینا ہوگا۔ اب بتائیے کہ کسی کی دکان زیادہ چلتی ہے کسی کی کم لیکن ٹیکس سب کو یکساں دینا ہوگا۔ اسی طرح تنخواہ دار لوگوں پر مزید ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے دوسری طرف وہ دن بھر اپنی ضرورت کی جو اشیاء خریدتا ہے اس پر بھی اسے جنرل سیل ٹیکس دینا پڑتا ہے تیسرا ظلم یہ کہ بجلی کے بلوں میں الگ سے یہ ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں۔ غریبوں پر یہ ظلم اس لیے زیادہ کھٹکتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے جاگیردار اور زمیندار حضرات کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں دیتے اسی طرح ہمارے ملک کی اشرافیہ اور اعلیٰ سرکاری ملازمین جن کو تمام مراعات مفت میں دی جارہی ہے ان کی مراعات ختم کرکے اربوں روپے بچائے جاسکتے ہیں لیکن ہمارے حکمران ان کے خلاف قدم اٹھاتے ہوئے انجانے خوف کا شکار نظر آتے ہیں۔
آخر میں 28 اگست کی جماعت اسلامی کی اپیل پر پورے ملک میں کامیاب ہڑتال پر جماعت اسلامی کو اور تاجروں کو اور ملک کے عوام مبارک باد پیش کرتے ہیں یہ ہڑتال در اصل اپنے مطالبات منوانے اور اپنے احساسات حکمرانوں تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ جو لوگ اس وقت ساٹھ ستر سال کی عمر میں ہوں گے انہیں ایوب خان کے خلاف 14 فروری 1968 کی مکمل اور پرامن ہڑتال یاد ہوگی جو مغربی اور مشرقی پاکستان میں بیک وقت ہوئی تھی جس دن ریلوے اسٹیشنوں سے کوئی ٹرین چلی تھی اور نہ کسی ائر پورٹ سے کوئی جہاز اُڑا تھا۔ پھر کراچی کے شہریوں کو 1986 سے 2016 تک یعنی 30 برسوں میں ایم کیو ایم کی طرف سے ہونے والی ہڑتالیں بھی یاد ہوں گی جو کبھی کسی عوامی مسئلے پر نہیں ہوئی بلکہ کوئی کارکن قتل ہوگیا تو قتل والے دن ہڑتال جنازے والے دن پورا شہر بند پھر سوئم میں پھر دکانیں بند کرادی جاتیں۔ تین تین دن کی ہڑتالوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے صرف ان کے مصائب میں اضافہ ہی کیا تھا۔