اور اب ریلوے کی باری

150

حکمرانوں کے لیے ہر کام کرنا اس اعتبار سے آسان ہوجاتا ہے کہ توانائی کا مسئلہ ہو بوجھ عوام پر منتقل کردو، آئی ایم ایف کی شرائط ہوں تو بوجھ عوام پر ڈال دو ، غرض ہر کام کا آسان راستہ عوام کی گردن ہے۔پی آئی اے کو تباہ کردیا اب بیچنے پر تلے ہوئے ہیں، یوٹیلٹی کارپوریشن کو ان ہی حکمرانوں نے تباہ کیا اور یہی اسے بند کرنا چاہتے ہیں، ریلویز کو انہوں نے خود تباہ کیا تھا اور اب بچت کے نام پر ہزاروں ملازم فارغ کرنے کی تیاری ہے۔ خبر یہ ہے کہ حکومت رائٹ سائزنگ کے نام پر ریلوے میں 13 ہزارسے زاید اسامیاں ختم کررہی ہے جس پرریلوے ملازمین کی پریم یونین نے ملک گیر احتجاجی تحریک کااعلان کردیا۔ مرکزی چیئرمین ضیا الدین انصاری، صدر شیخ محمد انور اور دیگر رہنماؤں نے کہا ہے کہ حکومت ملازمین کو ریلیف نہیں دے سکتی تو تکلیف بھی نہ دے، نوکریوں سے برطرفیاں صرف گریڈ ایک سے 16تک کے ملازمین کے لیے ہیں، حکومت کو اگر اسامیاں ختم ہی کرنی ہیں تو اس کا آغاز گریڈ 17 اور ایم پی ون اسکیل کے افسران سے کیا جائے جو بھاری اور پرکشش معاوضے لے کر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ، ریلوے ملازمین نے شبانہ روز کارکردگی سے ریلوے کوخسارے سے نکال کر ملکی تاریخ میں پہلی بار منافع بخش ادارے میں تبدیل کردیا ہے، سوال یہ ہے کہ اگر ادارہ خسارے سے نکل گیا ہے تو چھانٹی کیوں ،اور 88 ارب روپئے کی آمدن میں سے ریلوے مزدوروں کے لیے کچھ نہیں ہے ؟ پریم کے عہدیداروں نے تو ڈاکٹر قیصر بنگالی کے بیان کو تصدیق کردی ہے کہ چھوٹے ملازمین کو بچت کے نام پر نکالا جارہا ہے۔ اور حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ ڈاکٹر قیصر بنگالی غلط بول رہے ہیں۔ اب بتائے کہ کون سچ بول رہا ہے۔