لبرل بیانیوں کا سوشل میڈیا

179

غزہ کے 11مہینے:
7 اکتوبر 2023ء سے اب ستمبر 2024ء آگیا، یعنی ایک سال ہونے جا رہا ہے لیکن اسرائیلی حملوں کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں۔ جنگ بندی مذاکرات مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی حملوں کا دائرہ لبنان اور یمن تک پھیل چکا ہے۔ اِس ہفتے تو مغربی کنارے یعنی بقیہ فلسطین پر بھی بڑے حملے ہوئے۔ وہاں چھوٹے حملے، گرفتاریاں، فلسطین کی مزید زمینوں پر قبضے بدستور جاری ہیں۔

دُنیا بھر میں یورپی ممالک اور امریکا سمیت کئی اسلامی ممالک میں احتجاجی مظاہرے ہوچکے اور اَب بھی جاری ہیں۔ یہ سب مظاہرے ایک منٹ کو بھی غزہ کو ریلیف نہیں دلا سکے۔ اسرائیل بدمست ہاتھی کی مانند اقوا م متحدہ ہو یا عالمی عدالت… کسی کو خاطر میں نہیں لارہا۔ امریکا، برطانیہ سمیت دیگر ممالک اسرائیل کے لیے مستقل اسلحہ و دیگر جنگی امداد کھل کر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب غزہ کے ساتھ ایران، لبنان (حزب اللہ)، یمن (حوثی) ہی عملی طور پر کھڑے نظر آرہے ہیں۔ اہم بات یہی ہے کہ اگر اسرائیل کی مدد کے لیے عَلانیہ طور پر امریکا، برطانیہ، بھارت، سمیت دیگر ممالک آسکتے ہیں تو غزہ کے لیے کوئی ملک کیوں نہیں نکل رہا؟

41 ہزار تو معلوم شہدا ہیں جن کی کہیں کوئی انٹری ہوجاتی ہے اور غزہ کی جو بھی انتظامیہ باقی ہے وہ بتاتی ہے۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں مسلمانوں کی اموات ایک لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ فلسطینی محکمہ صحت کے مطابق زخمیوں اور معذور افراد کی تعداد اتنی ہے کہ اگر آج جنگ رُک جائے تو 5 لاکھ سرجری کرنی ہوں گی، کیونکہ اِس وقت نہ علاج میسر ہے اور نہ غذائیں۔ زخمی، بیمار… سب دن گن رہے ہیں کہ کب موت کی آغوش میں سکون پاسکیں۔ شہادتوں کا سفر عوام ہی نہیں، بلکہ اسماعیل ہنیہ اور اُن کے اہل خانہ کی صورت ہر سطح پر پھیلا ہوا ہے۔ اسرائیلی فوج نے 80 فیصد غزہ خالی کرا لیا ہے۔ ’الجزیرہ‘ پر جو وہاں کی وڈیوز اور خبریں نشر ہوتی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ اہلِ غزہ ایک ناقابلِ بیان اذیت سے گزر رہے ہیں جس کو بتانے، سمجھانے کے لیے الفاظ ہی نہیں۔ اچانک آسمان سے میزائل آتا ہے اور سب تباہ ہوجاتا ہے۔ ہر طرف لاشیں، ملبہ… جو اس میں بچ جاتے ہیں وہ زخمیوں کو لے کر جگہ چھوڑ جاتے ہیں، ملبے سے لاشیں نکالتے ہیں، اُن کی تدفین کرتے ہیں۔ پانچ سو کے قریب طبی مراکز ہیں جو اسرائیل نے جنگی جرائم کرتے ہوئے تباہ کیے ہیں۔ یہی نہیں، اسکول جو بنیادی طور پر پناہ گزین مراکز تھے وہ بھی نہیں چھوڑے۔ 250 سے زیادہ تو امدادی کارکنان مارے جا چکے ہیں، اس کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ کوئی سمجھ نہیں پارہا کہ اقوام متحدہ کی فوج کب جائے گی اور مسلمانوں کو بچائے گی؟ یہ فوج کس کام کی ہے؟ یہ عالمی ادارے کس کام کے لیے،کون سے امن کے لیے قائم کیے گئے؟ اب تو خود اقوام متحدہ کی قراردادیں منظور ہوچکیں مگر پھر بھی اگر عمل نہیں ہورہا تو یہ امن فوج کس کام آئے گی؟

اِس ہفتے منافقت کی ایک اور تصویر دیکھیں۔ غزہ کی 24 لاکھ کی آبادی میں 11ماہ میں 50 ہزار بچوں کی ولادت رپورٹ ہوئی ہے۔ ان بچوں میں ویکسی نیشن نہ ہونے کے سبب پولیو کے کیس بھی سامنے آنا شروع ہوئے تو پوری دُنیا کو پریشانی ہوگئی۔ اقوام متحدہ نے فوری طور پر پولیو ویکسین کی ڈوز بھجوا دیں۔ اقوام متحدہ کو پولیو روکنے کی فکر لاحق ہے مگر وہاں جاری نسل کُشی کوئی مسئلہ نہیں۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر کچھ دنوں کے لیے حملے روکے تاکہ اس دوران غزہ میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جا سکیں، اس کے بعد وہ بے شک بمباری شروع کردے۔

غور سے دیکھیں تو آپ جان لیں گے کہ غزہ پر اس وقت صرف اسرائیل ہی نہیں امریکا، برطانیہ، بھارت، فرانس، اٹلی، آسٹریلیا سمیت سب کسی نہ کسی شکل میں حملہ آور ہیں۔ دوسری جانب مسئلہ یہ نہیںکہ غزہ یا ایران اکیلا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ 50 سے زائد اسلامی ممالک درحقیقت اکیلے ہیں۔ وہ ممالک جن کی آپس میں اتنی جنگیں رہی ہیں کہ جنگِ عظیم اول، دوم ہوگئی، اور آج بھی 3سال سے یوکرین روس جنگ جاری ہے، وہ سب ایک ہیں۔ مگر ایک کلمہ، ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک کتاب، ایک قبلہ کو ماننے والے، باہمی مدد کے احکامات کا ڈھیر رکھنے والے ’اکیلے‘ہیں۔ یہ بے حسی دشمن کو فائدہ دے گی۔ کوئی کسی کی مدد کو نہیں آئے گا جب سب مل کر حملہ کریں گے۔ یہ دیکھنے کے باوجود کہ ’پیپسی‘کو ’ٹیم‘ کے نام سے کیوں سافٹ ڈرنک دوبارہ لانی پڑ گئی۔ ایک انتہائی کم تر درجے کی بائیکاٹ مہم بھی ہم پورے جذبے سے نہیں چلا پا رہے۔ آج بھی لوگ ملتے ہیں تو سوال کرتے ہیں کہ بائیکاٹ سے تو اپنوں کا نقصان ہے! اس تھرڈ کلاس جعلی لاجک میں یہ بات ازخود واضح ہوجاتی ہے کہ ’’اپنا‘‘ کون ہے اور ’’پرایا‘‘ کون۔

قادیانیوں کے نئے وکیل:

ملعون قادیانی مبارک ثانی کیس کے سلسلے میں 22 اگست کو ہونے والا فیصلہ ان معنوں میں اہم تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنی غلطی تسلیم کرلی۔ چیف جسٹس نے صاف کہا کہ اُنہوں نے علما سے جو رہنمائی مانگی تھی وہ اتنے زیادہ صفحات کی تھی کہ وہ اُس کو پڑھ نہیں سکے۔ اب ظاہر ہے اگر علما کی سفارشات نہیں پڑھیں گے تو فیصلہ اس کے برعکس ہی ہوگا۔ یہ بات لنڈے کے لبرلز اور قادیانیوں کے نئے وکلا کو ہضم نہیں ہورہی۔ سوشل میڈیا پر کیمرے کی آڑ میں جھوٹ بولنا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا، کیونکہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بہرحال ہم ناموسِ رسالت ﷺکے دِفاع میں اِن سب کو ہر ممکن طریقے سے ایکسپوز کرتے رہیں گے۔ ویسے تو پورا ملک ہی یکسو ہے کہ اہلِ حق کو مختصر فیصلے کی حد تک کامیابی ہوئی ہے، اس لیے لنڈے کے چند لبرلز کی کوئی اوقات نہیں بنتی، لیکن اگر اُن کے پاس وڈیو کا، تو میرے پاس قلم کا محاذ ہے۔ ملک کے واحد نظریاتی پرچے میں ناموس کا دفاع ہر ہر محاذ پر ہوگا۔ اس میں سب سے زیادہ مروڑ صحافیوں کو تھی جو وقوعہ پر موجود تھے۔ اِن میں مطیع اللہ جان، اسد طور، صدیق جان (کسی حد تک)، غریدہ فاروقی، رضا رومی، نادیہ نقی، ان کے علاوہ لبرل یوٹیوبرز میں EONوالے، پھر شہزاد غیاث سمیت دیگر، سوشل میڈیا پر مزید گندگی پھیلاتے رہے۔ کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ کیس کے اصل مدعی سے بات کرلے۔ سب اپنے مبینہ ’لفافے‘ حلال کرکے نئے قادیانی وکلا کے طور پر نظرآئے۔

لبرل بیانیوں کا رد:
لنڈے کے اِن لبرلز کے نمایاں جھوٹے بیانیے یہ تھے جن کا باری باری پوسٹ مارٹم کیا جارہا ہے:

نمبر1: چیف جسٹس اور سپریم کورٹ پر مذہبی جتھوں نے ڈنڈوں سے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں وہ دبائو میں آئے۔

جواب: مذہبی جتھوں کے دبائو کی حقیقت دیکھیں۔ ترکی سے مفتی تقی عثمانی وڈیو لنک پرتھے، مولانا فضل الرحمٰن محض چند عالم ساتھیوں کے ساتھ تھے، صاحب زادہ ابوالخیر محمد زبیر اور ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کون سا مذہبی جتھہ ہیں؟ مولانا شیر علی، اکیلا مفتی حنیف قریشی کیسے جتھہ کہلائے گا؟ کیا سپریم کورٹ میں کوئی ڈنڈے لے کر جاسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پورا کیس ہی دین سے تعلق رکھتا تھا۔ چیف جسٹس پر الزام تھا کہ وہ 6 فروری کے فیصلے میں قرآن مجید کی غلط تشریح کرچکے، تو قرآن مجید کی تشریح درست کرانے کے لیے علما اور مذہبی افراد ہی آئیں گے۔ اس کیس کی سماعت میں ڈاکٹر، انجینئر، پلمبر، آئی ٹی ایکسپرٹ کی ضرورت نہیں تھی بلکہ صرف علمائے کرام کی ہی ضرورت تھی۔ اس میں دبائو کا سوال ہی نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ تمام علما متفق تھے کہ فیصلے میں قرآن مجید کی آیات کا انتہائی غلط استعمال کیا گیا ہے۔

نمبر2: چیف جسٹس نے اپنے دفتر میں جاکر فیصلہ لکھا اور سُنایا۔

جواب: چیف جسٹس کا اپنے دفتر میں فیصلہ کرنا کورٹ رولز کا حصہ ہے۔ یہ کوئی غیر قانونی، یا حیرانی کی بات ہی نہیں، دسیوں فیصلے بالکل اِسی طرح ہوتے رہے ہیں۔ جان بوجھ کر اس عمل کو ایسے پیش کیا گیا جیسے یہ کوئی بہت بُرا کام ہے۔ تمام عدالتوں میں جج اپنے چیمبر کو بھی کیس کی سماعت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں غیر قانونی کا کوئی سوال ہی نہیں۔ علمائے کرام اور وکلا کی ساری تقاریر تو کورٹ روم میں ہی سُنی گئیں۔ ایک رپورٹر صدیق جان نے تو صاف کہا کہ ’’کورٹ روم مچھلی بازار بن گیا تھا، چیف جسٹس کے ساتھ ایسی بدتمیزی نہیں ہونی چاہیے تھی‘‘۔ اب اگر چیف جسٹس اتنی بے عزتی کے بعد بھی اپنے دفتر نہ جائے تو کب جائے گا؟

نمبر 3: فیصلہ سناتے وقت چیف جسٹس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جبر میں ہیں۔

جواب: ایک طرف یہ سب رپورٹر خود کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس نے غلطی مانی، تاریخ میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے۔ اب چیف جسٹس اتنا بڑا آدمی ہے، اتنے بڑے عہدے پر ہے، کوئی انسان جب اپنی غلطی مان لے، وہ بھی قرآن کی معنوی تحریف جیسی سنگین غلطی پر، تو اس کا اقرار کرتے ہوئے اُس کی زبان کیوں نہ لڑکھڑائے گی؟ بس یہ جان لیں کہ زمین پر اِس وقت صرف قادیانی ہی وہ ملعون ٹولہ ہے جو تحریفِ قرآن پر بالکل نہیں گھبراتا۔

نمبر4: چیف جسٹس اپنے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل نہیں سُن سکتا۔

جواب: انتہائی جاہلانہ بات کی گئی ہے، ایسی کوئی پابندی نہیں۔ یہ ایک غیر معمولی کیس ہے۔ قادیانیت انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے۔ 6 فروری کو جو سنگین غلطی ہوئی،24 کو اسے دہراتے ہوئے مزید راستے کھولے گئے۔ مسئلہ غلط قرآنی تشریح کا تھا۔ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ کے معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتی یہ کوئی نہیں بتاتا۔ اپیل ضمانت کی تھی تو سپریم کورٹ نے جرم کی دفعات کیسے ہٹائیں، جبکہ ٹرائل کورٹ، ہائی کورٹ ضمانت رد کرچکی تھیں؟ یہ ساری قانونی شقیں کسی صحافی کو یاد نہیں آئیں۔ یہ عام کیس نہیں تھا، قرآنی آیات کے غلط معانی و مفہوم اور آئینِ پاکستان کی شقوں کے غلط معانی و مفہوم نافذ کرنے کا معاملہ تھا۔ ایک بار کیا، دس بار بھی ہوگا تو یہ معاملہ یونہی سُنا جائے گا۔ غیر معمولی صورتِ حال میں غیر معمولی اصول اختیار کیے جاتے ہیں۔

نمبر5: پاکستان میں مذہبی جتھے جو چاہے کروا سکتے ہیں۔

جواب: پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے، اسلامی جمہوری کا مطلب ہی وہ اسلامی رائے ہے جو اکثریت چاہے۔ مذہبی اکثریت مذہب کے مطابق جو چاہتی ہے وہی ہوگا۔ مگر ان بے وقوفوں کو یہ نہیں معلوم کہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے درخواست حکومت نے لگائی تھی، مذہبی جتھے نے نہیں۔ اب یہ تو جمہوریت کی حد ہے، یہاں کون سا مذہبی جتھہ آگیا؟

نمبر6: چیف جسٹس نے آئین و قانون کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔

جواب: پاکستان کے آئین و قانون میں صاف درج ہے کہ کوئی قانون خلافِ قرآن وسنت نہیں بن سکتا۔ قرآن و سنت کی تشریحات علما کریں گے، اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں۔ اگر تمام علما متفق ہیں تو فیصلہ دینی ہے اور ازخود آئینی بھی۔

نمبر7:سابقہ فیصلے درست تھے، ان کو کیوں ختم کیا گیا؟

جواب: سابقہ فیصلے درست تھے ان کو کیوں ختم کیا گیا؟یہ سب سے بڑا مروڑ ہے۔ جناب! 295 (توہین مذہب) کے کیس میں ضمانت ہوتی ہی نہیں۔ یہ تو پکا قادیانی مبلغ تھا، مگر سپریم کورٹ نے پہلے وہ دفعات ختم کیں جن کا اُس کو اختیار نہیں تھا، پھر ضمانت دے دی۔ اس لیے نہ 6 فروری کا فیصلہ درست تھا، نہ اُس کے بعد کا۔ ضمانت دینے پر کچھ علما سخت معترض تھے مگر چونکہ ٹرائل چلنا ہے اس لیے انہوں نے برداشت کرلیا۔ مبارک ثانی ملک چھوڑ کر نہیں جا سکتا، اُس کو پابند کیا گیا ہے۔

نمبر8: کیس تو محض ایک Banکتاب چھاپنے کا تھا۔

جواب: جی، یہ ہے وہ خطرناک جملہ ’’Ban کتاب‘‘۔ اِن لبرلز کو معاذ اللہ قرآن مجید (تحریف شدہ)Ban کتاب لگتی ہے۔ ان لبرلز کی زبان گھس رہی تھی یہ بتاتے ہوئے کہ وہ ’تفسیر صغیر‘ کیا ہے؟ یہ ایسے پیش کررہے تھے، جیسے یہ کوئی عام سی کتاب ہے تاکہ سامعین کی ہمدردیاں مبارک ثانی سے جُڑی رہیں۔ یہ کیس قادیانیت کی تبلیغ کا تھا جسے جان بوجھ کر ممنوعہ کتاب کی اشاعت ظاہرکیا جا رہا ہے، جو کہ جھوٹ ہے اور اس کی ذمہ داری چیف جسٹس پر ہی ہے۔

تو یہ تھا ان دیسی لبرلز کا مختصر پوسٹ مارٹم۔