سپریم کورٹ ججز کی تعداد بڑھانے کا بل سینیٹ میں پیش

193
chairmen have been elected

سینیٹ میں سپریم کورٹ ججز کی تعداد میں اضافے کا بل پیش کر دیا گیا ہے، جسے اب متعلقہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ بل سینیٹر عبدالقادر نے سینیٹ اجلاس میں پیش کیا، جس میں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے علاوہ 20 ججز کی تعیناتی کی تجویز دی گئی ہے۔

سینیٹر عبدالقادر نے اس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ میں 53 ہزار سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں اور کیسز کا فیصلہ کرنے میں دو سال تک لگ جاتے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ 16 اضافی ججز کی ضرورت ہے کیونکہ سپریم کورٹ میں آئینی معاملات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اکثر لارجر بینچ تشکیل دیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اربوں روپے کے مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں اور عدالت کے پاس ان کے فیصلے کا وقت نہیں۔

پی ٹی آئی نے اس بل کی مخالفت کی اور سینیٹر علی ظفر نے اس بل کو فوری اور مبہم قرار دیا۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس مسئلے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ سزائے موت اور عمر قید کے کیسز بھی التوا کا شکار ہیں، اور ایک شخص نے اپیل کی التوا کی وجہ سے 34 سال جیل میں گزارے۔

انہوں نے پشاور ہائی کورٹ کے لیے دس اضافی ججز کی ضرورت کی بھی تصدیق کی اور کہا کہ وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جو ججز فراہم کر رہی ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بل کو متعلقہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا جائے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے اعتراض کیا کہ ججز کی تعداد میں اچانک اضافہ کرنے کا قانون غیر متوقع ہے اور اسے جوڈیشل مارشل لا کی کوشش قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ اضافی ججز کی تعداد میں 7 تک کی درخواست کی جا رہی ہے، جبکہ وہ صرف 2 ججز کی تعداد بڑھانے پر تیار ہیں۔ ان کے مطابق اگر ججز کی تعداد بڑھانی ہے تو پہلے ماتحت عدلیہ میں اضافہ کیا جائے۔

سیف اللہ ابڑو نے تنقید کی کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے بعد پی ٹی آئی نے ججز کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ شروع کیا ہے۔

ایمل ولی نے کہا کہ جب فیصلے دوسرے ذرائع سے کیے جاتے ہیں تو ایسے مسائل ابھرتے ہیں۔ انہوں نے ماتحت عدلیہ کے لیے تفصیلی اصلاحات کا ذکر کیا اور کہا کہ میڈیا میں اضافی ججز کی ضرورت پر خبریں چل رہی ہیں، جو ایوان زیریں کے استعمال کا نتیجہ ہے۔

چیئرمین سینیٹ نے بل کو مزید غور کے لیے متعلقہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا ہے۔