اینٹی لیبر کوڈ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام اجلاس

136

پنجاب لیبر کوڈ 2024 کے حوالے سے تمام فیڈریشنوں کی قائم کردہ اینٹی لیبر کوڈ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام بختیار لیبر ہال لاہور میں پنجاب بھر کے لیبر لیڈرز کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس سے نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، واپڈا ہائیڈرو یونین کے سیکرٹری جنرل خورشید احمدِ پی ڈبلیو ایف کے چیئرمین عبدالرحمن آسیِ انڈسٹریل فیڈریشن کی آئمہ محمود، اِن فارمل سیکٹر کے مزدوروں کی رہنما نور فاطمہ، متحدہ لیبر فیڈریشن کے چودھری اکبر، حنیف رامے، ریلوے پریم ورکشاپ کے صدر چودھری محمود الاحد، پاکستان مائنز ورکر یونین کے چیئرمین را سعید خٹک، این ایل ایف کے حسیب الرحمان، امین منہاس و دیگر ٹریڈ یونینز رہنماؤں ذوالفقار سرمدی، نصیر الدین ہمایوں، ضیاء سید، آصف شاہ، افضل اعوان ، عرفان علی، حسین وٹو، راجہ غلام مصطفی، ناصر امان سندھو، عثمان ظہور، رانا حسن، نیاز خان ،نصرت بشیر، ظفر و دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔
شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ اس ترمیم کے بعد دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے کہ جس میں پانچ لیبر قوانین ہیں مرکز کے الگ اور صوبوں کے الگ اور یہ بھی تماشا ہے کہ بعد میں آنے والا قانون پہلے سے بہتر ہوتا ہے لیکن یہاں لیبر قوانین جب بھی بنے ہیں بعد میں آنے والا قانون پہلے سے بدتر ثابت ہوا ہے اور یہی صورتحال سندھ لیبر کوڈ اور پنجاب لیبر کوڈ 2024 کی ہے جس میں مستقل ملازمت ختم کر کے ٹھیکیداری نظام مسلط کیا جارہا ہے۔ ٹریڈ یونین کے حق پر قدغن لگا کر سی بی اے کو کمزور کیا گیا ہے، ہڑتال کا قانونی حق واپس لے لیا گیا ہے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے جس کی وجہ سے پہلے ہی ٹریڈ یونین کمزور اور مالکان مضبوط ہوئے ہیں ان کو زیادہ اختیارات دے کر ٹریڈ یونین کو سرے سے ختم کرنے کا منصوبہ ہے۔ فیکٹری ایکٹ پیمنٹ آف ویجز ایکٹ، اسٹینڈنگ آرڈر 1968، انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ، ہیلتھ اینڈ سیفٹی ایکٹ اور دیگر متعلقہ قوانین میں دیے گئے حقوق اور مراعات کو چھین لیا گیا ہے اور اس مسودہ کو بناتے ہوئے سہ فریقی مشاورت کو بروئے کار نہیں لایا گیا اور ورکرز کو نظر انداز کر کے مالکان کی ایما پر مزدور کش قوانین تجویز کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مزدوروں کی طرف سے وہ لوگ کہ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے گورنمنٹ کے اداروں میں اور عالمی سطح پر مزدوروں کے نمائندگی کر رہے ہیں وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حیرت ہے کہ عالمی اداروں اور حکومتی اداروں میں مزدوروں کی نمائندگی بھی مالکان کا نمائندہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزدور تحریک کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ختم کیا جا رہا ہے، اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ تمام مزدور متحد ہو کر اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکات پر ایک لائحہ عمل بنائیں اور اس پر اخلاص سے عمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ لیبر کوڈ کے ساتھ نجکاری کا مسئلہ بھی سنگین نوعیت کا ہے، حالت یہ ہے کہ نج کاری کے لیے منعقد کی جانے والے اجلاسوں پر اربوں روپے خرچ کر لیے گئے ہیں 13 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور 3کروڑ 70 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں، پاکستان پر مسلط جاگیرداروں سرمایہ داروں اور افسر شاہی کا ٹرائیکا مہنگی بجلی، گیس، آٹا، گھی، چینی ضروریات زندگی کی تمام چیزوں کا ذمہ دار ہے اور یہی وہ ٹرائیکا ہے جس نے پاکستان کی صنعت، زراعت، تجارت کو تباہ کیا اور پاکستان پر انرجی کے آئی پی پیز کی صورت میں ایسے منصوبے مسلط کیے کہ جس سے نہ صرف پاکستان کی معیشت تباہ ہوگئی بلکہ پاکستان کی قومی سلامتی خطرے میں ڈال دی گئی ہے۔ اس موقع پر بزرگ مزدور رہنما اور واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک یونین کے سیکرٹری جنرل خورشید احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم لیبر کوڈ کو مسترد کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فی الفور اسے واپس لے اور مزدوروں کی تجاویز پر مبنی قانون سازی کی جائے اور ایسے قوانین بنائے جائیں جو آئین پاکستان اور آئی ایل او کے کنونشنز کے مطابق ہوں۔ اجلاس سے پی ڈبلیو ایف کے عبدالرحمن آسی، پاکستان مائنز لیبر فیڈریشن کے را سعید خٹک، متحدہ لیبر فیڈریشن کے چودھری اکبر، حنیف رامے، مزدور رہنما آئمہ محمود، نور فاطمہ، نصرت بشیر ظفر، پریم یونین کے چودھری محمود الاحد این ایل ایف کے سیکرٹری جنرل حسیب الرحمن اور امین منہاس کے علاوہ ذوالفقار سرمدی، نصیر الدین ہمایوں، ضیا سید، آصف شاہ افضل، عرفان علی، محمد حسین وٹو، راجہ غلام مصطفی، محمد افضل ناصر امان سندھو، ممتاز ظہور، رانا حسن، نیاز خان و دیگر مزدور رہنماؤں نے خطاب کیا۔ تمام مزدور رہنماؤں نے لیبر کوڈ اور نجکاری سمیت دیگر مزدور مسائل پر متحد ہو کر جدوجہد کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ انشاء اللہ ہم مزدوروں کو ان کے حقوق دلائیں گے اور پاکستان کی ترقی میں عائل رکاوٹوں کو دور کریں گے اور صنعتی ترقی کو یقینی بنائیں گے۔