دو بڑی خبروں میں سے ایک بڑی اور بری خبر یہ ہے کہ کچے میں آپریشن کے لیے جانے والے پنجاب پولیس کے 25 اہلکار جو راجن پور کے قریب لُند گینگ کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کے لیے روانہ کیے گئے وہ ظاہر پیر انٹر چینج کے قریب اپنے متعلقہ انچارج کو یہ کہہ کر ہم اپنے نقصان کے خود ذمے دار ہیں مگر کسی صورت کچے کے علاقے میں ہونے والے آپریشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ پولیس اہلکاروں کا یہ راہ فرار جان گنوانے کے خوف سے تھا تو یہ اچھی علامت ہرگز نہیں اگر ڈاکوئوں سے ہمدردی کی بدولت تھا تو اس سے بری اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ محکمہ پولیس کی آستینوں میں سپولے چھپے ہوئے ہیں۔ دوسری بڑی ترنگ وزیر داخلہ محسن نقوی کا یہ بڑا بیان ہے کہ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ وزیرداخلہ جس محکمہ پولیس کی مار بتارہے ہیں اس کے جوان ڈاکوئوں سے مقابلے سے کنی کترا رہے ہیں۔ سندھ کی بدامنی ہو یا بلوچستان اور کے پی کے کی دہشت گردی، یہ کوئی اس دور کا معاملہ نہیں یہ پرانا معمول رہا ہے۔ اللہ کے رسولؐ کی بعثت سے پہلے ایام جاہلیت میں حجاج کے قافلے ڈاکو لوٹ لیا کرتے تھے اور معمولی بات پر قتل کردینا معمول تھا۔ اسلام کی کرنیں روشن ہوئیں تو پھر سیدنا عمرؓ کے دور میں دیکھا گیا کہ ایک عورت تن تنہا اونٹ پر سوار عازم سفر ہے اسے جنگلی درندوں کے علاوہ کسی کا خوف نہیں۔ یہ اسلامی نظام کی برکات تھیں کہ جس میں کہا گیا کہ میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ان تعلیمات کے اطلاق سے کسی کو استثنیٰ ہرگز نہیں۔ آپؐ نے بیت مال کے اونٹ چرا کر
فرار ہو کر جانے والے ڈاکوئوں کو پکڑوا کر ان کے ہاتھ پیر شریعت کے مطابق کاٹ کر پہاڑوں پر ڈال دیا کہتے ہیں کہ وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر واصل جہنم ہوگئے۔ یوں پھر امن کی بہار آنی تھی وہ آگئی اور جب تک شریعت کا دور دورہ رہا امن کی فاختہ ربّ کی حمد کرتی رہی۔
پاکستان کی بدامنی ایام جاہلیت جیسی ہرگز نہیں۔ مگر بے قابو پھر کیوں ہے اس کی وجہ شریعت کی تعلیمات پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ سیاسی مصلحت، پشت پناہی، کمائو پوت کا درجہ دینا اور تو اور سیاسی ضرورت کا سامان کرنے کے ساتھ مظلوم کو عدالت سے انصاف نہ ملنا بھی اہم وجہ ہے جو ہتھیار اٹھانے، لوٹ مار کرنے کا سبب بنتی ہے۔ جسٹس کاظم ملک کا ارشاد گرامی میڈیا پر قلم بند ہوا کہ آدھے سے زیادہ مقدمات ایک پیشی پر ختم کیے جاسکتے ہیں اور قتل کا مقدمہ تین پیشیوں پر نمٹایا جاسکتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو وکلا کی اکثریت مالی مشکلات میں مبتلا ہوجائے گی اور اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وکلا کی آمدنی حلال ہوجائے اس بیان کے بعد ’’حیراں ہوں دل کو روئوں یا پیٹوں جگر کو میں؟‘‘ جب یہ اقرار ہو اور عمل ندارد ہو تو پھر جذباتی افراد قانون ہاتھ میں نہ لیں تو اور کیا کریں، مال متاع کی حوس بھی ہے تو اب میڈیا کے دور میں نام و نمود کی بیماری بھی ڈاکوئوں اور دہشت گردوں میں گھر کر گئی ہے۔
عدل کے دو پیمانے ہو کر رہ گئے ہیں پکے کے ڈاکوئوں کو حکومت اور استثنیٰ ہے اور کچے کے ڈاکوئوں نے عدل اور حکمرانی کی رٹ کو چیلنج کیا ہوا ہے۔ ڈاکوئوں کی تعداد چند سو ہے ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد عزت کی زندگی گزارنے کے لیے معافی کی طلب گار ہے مگر علاقہ کے وڈیرے، مڈل مین اور پولیس کی کالی بھیڑوں کا گٹھ جوڑ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ یہ پارس اُن کے ہاتھ سے چلا جائے۔ جو کمائی اور دھاک کا ذریعہ ہے۔ آرمی چیف عاصم منیر کہتے ہیںکہ ربّ کا حکم ہے مایوس نہ ہوں، بالکل درست ہے مگر جب عدل و انصاف قیامت پر موقوف ہوجائے تو مایوسی فطری ہے۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کردہ مملکت میں طیب قیادت کا فقدان ہو تو بے امنی، دہشت گردی، لوٹ کھسوٹ اور تمام جہاں کی خرابیوں کے جھاڑ جھنکار ہی اُگیں گے، دامن بچانا مشکل کردیا گیا ہے۔ اگر اخلاص نیت حکمرانوں میں ہو تو امن کا قیام دور کی بات بھی نہیں۔
1980ء اور 1990ء میں نیویارک سٹی کا 25 فی صد علاقہ بری طرح بدامنی کی لپیٹ میں تھا۔ جہاں ہر سال 2000 افراد قتل اور 11000 جرائم ہر ہفتہ ہوا کرتے تھے۔ انتظامیہ نے اعلان کر رکھا تھا کہ کوئی بھی ان علاقوں میں سورج غروب ہونے کے بعد نہ جائے اور پولیس ان علاقوں کو اندھیرا ہوتے ہی چاروں طرف سے گھیر لیتی ہمارے کچے اور بلوچستان کے علاقوں کی موجودہ بدامنی اس کے مقابلہ میں کسی شمار میںنہیں ہے۔ نیویارک سٹی میں 1994 میں میئر کے انتخاب ہوئے جس میں اٹالین نژاد روڈی جولیانی میئر منتخب ہوئے۔ میئر نے حلف اٹھانے کے ساتھ ہی گورنر سے مطالبہ کیا کہ انہیں فری ہینڈ دیا جائے ان کے معاملات میں مداخلت نہ کی جائے وہ نیویارک سٹی کو پرامن سٹی دیکھنا چاہتے ہیں۔
اجازت ملی تو میئر جولیانی نے نیویارک پولیس کی تعداد 28 سے بڑھا کر 40 ہزار کردی۔ اور انہوں نے حکمت عملی یہ اپنائی کہ پولیس کی کالی بھیڑوں جن کا ڈاکوئوں سے رابطہ تھا آپریشن میں آگے ڈھال کے طور پر رکھا اور نئے تربیت یافتہ پولیس افسران اور جوانوں کو پیچھے رکھا۔ ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کی اس حکمت عملی سے کالی بھیڑوںکا صفایا ہوگیا اور ڈاکوئوں کی سرکوبی بھی ہوگئی۔ یوں حکمت عملی کی کامیابی نے تشدد و جرائم کی شرح میں 56 فی صد کی کمی کردی اور لوٹ مار کے 67 فی صد واقعات میں کمی ہوئی تو انسانی قتل و غارت کا گراف دو تہائی نیچے آگیا۔ یہ ان ہی ایام کا قصہ ہے جب پاکستان میں اغوا، قتل غارت گری، تاوان کا سلسلہ ہائے دراز ہورہا تھا۔ مگر پاکستان میں نیویارک سٹی جیسی میئر شپ والی قیادت نہ تھی بلکہ کچھ کے متعلق تو یہ آرا ہے کہ انہوں نے بدامنی میں ہی اقتدار کا بھلا جانے کوئی اس دور کہ وزیراعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ کے ریکارڈ کو جو سرکار کے کباڑ خانہ میں موجود ہے اٹھا کر دیکھ اور پڑھ لے تو پتا چلے گا کہ یہ آگ ہاتھ سے لگائی اور بڑھائی گئی۔ اب دعوے نہیں عمل کی ضرورت ہے ورنہ یہ خطے ہاتھ سے نکل کر ظالموں کے ہاتھ جارہے ہیں۔