مودی کے دور میں بھار ت خواتین کے لیے انتہائی غیر محفوظ بن گیا

180

9_ اگست کو بھارت کے شہر کولکتہ میں خاتون ڈاکٹر کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ واقعہ آر جی کار میڈیکل کالج میں پیش آیا جسے مغربی بنگال کی حکومت چلاتی ہے۔ خاتون ڈاکٹر 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران 20 گھنٹے تک کام کرنے کے بعد سیمینار کے ہال میں آرام کرنے گئی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں متاثرہ خاتون ڈاکٹر کے سر، چہرے، گردن، بازوؤں اور حساس اعضا پر 14 سے زیادہ زخم پائے گئے ۔حیرت انگیز طور پر اس سے قبل اتنے زخموں کے باوجود خاتون ڈاکٹر کی موت کی وجہ خود کشی قرار دی جا رہی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرینی ڈاکٹر پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ اس کے پھیپھڑوں میں خون بہنے اور پورے جسم میں خون کے لوتھڑے بننے کا بھی مشاہدہ کیا گیا ۔لیکن اس کے جسم میں کسی ہڈی کے ٹوٹنے کے کوئی آثار نہیں ملے۔ پولیس نے تفتیش کے دوران ایک شہری رضاکار کو گرفتار کیا ،جس کے بعد کولکتہ ہائی کورٹ نے اس معاملے کو مزید جانچ کے لیے سی بی آئی کو منتقل کر دیا تھا۔ واقعے کے بعد ملک بھر میں لاکھوں ڈاکٹروں نے ہڑتال کردی اور کام پر آنے سے انکار کردیا۔ عوامی ردعمل مزید بڑھا تو وزیراعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں یوم آزادی کے موقع پر اپنے خطاب میں کولکتہ کے واقعے کا براہ راست ذکر نہیں کیا لیکن خواتین کے خلاف جاری تشدد پر گہرے غم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ماؤں اور بہنوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر غصہ ہے۔خواتین کے خلاف جرائم کی جلد تحقیقات ہونی چاہیے، خواتین کے خلاف درندگی پر سخت اور جلد سزا ہونی چاہیے۔ یہ معاشرے میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔بھارتی میڈیا پر خاتون ڈاکٹر سے زیادتی اور قتل کا موازنہ 2012 ء میں دہلی میں پیش آنے والے نربھیا قتل کیس سے کیا جارہا ہے ۔ اس واقعے میں 5مردوں اور ایک نابالغ نے 16 دسمبر 2012 ء کو نئی دہلی میں 23 سالہ زیر تربیت فزیو تھراپسٹ کو بس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور لوہے کی سلاخوں سے تشدد کرکے سڑک پر پھینک دیا تھا۔ خاتون تقریباً دو ہفتے بعد سنگاپور کے ایک اسپتال میں اندرونی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کے منہ میں چلی گئی تھی۔

اسی طرح گزشتہ برس مئی میں منی پور میں 2خواتین پر دلخراش حملے کی وڈیو سامنے آئی جنہیں ہجوم نے برہنہ کر کے پریڈ کرائی تھی۔ بھارت میں خواتین پر حملوں کا سلسلہ صرف مقامی خواتین تک محدود نہیں ہے،بلکہ غیر ملکی خواتین اور سیاحوں کو ہراساں کرنا اور بسا اوقات زیادتی کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ اس سے قبل مشرقی ریاست جھارکھنڈ میں برازیلی خاتون سیاح اور بلاگر کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ پیش آیا تھاجس نے بھارت کو شرمسار کردیا تھا۔ اس واقعے کے خلاف بھارت ہی میں نہیں بلکہ بیرون ملک بھی احتجاج کیا گیا۔پولیس نے فوری طور پر 4ملزمان کو گرفتار کرنے کاد عویٰ کیا جب کہ 3 فرار ہوگئے۔2014 ء میں جرمن خاتون، 2018 ء میں روسی خاتون، 2022 ء میں برطانوی سیاح خاتون اور 2024 ء میں ہسپانوی خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات پیش آئے تھے۔ 2019 ء میں امریکا نے اپنے شہریوں کو بھارت کا سفر کرنے کے خلاف وارننگ بھی جاری کی تھی۔

ان واقعات نے جہاں خواتین کے تحفظ کی صورت حال کو اجاگر کیا ہے وہیں اس حوالے سے مودی سرکار کے دعوؤں پر بھی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ 2012 ء کے نربھیا کیس کے بعد سخت قوانین بننے کے باوجود انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے میں بہت کم تبدیلی آئی ہے۔ 2022 ء میں بھارت میں اوسطاً ہر روز زیادتی کے 86 کیس رپورٹ ہوئے۔ بھارتی نیشنل کمیشن برائے خواتین کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 ء میں خواتین کے خلاف جرائم کی 28ہزار 811 شکایات موصول ہوئیں جن میں سب سے زیادہ 8ہزار 540 شکایات ہراساں کرنے کی تھیں۔ نیشنل ڈیٹا کے مطابق گھریلو تشدد کی 6ہزار 274 شکایات جبکہ جہیز کے لیے مارپیٹ اور زدوکوب کرنے کی 4ہزار 797 شکایات موصول ہوئیں۔ چھیڑ چھاڑ کی 2ہزار 349، پولیس کی بے حسی کی 1618، عصمت دری اور زیادتی کی کوشش کی 1537، ہراساں کرنے کی 805، سائبر کرائم کی 605، تعاقب کی 472 اور غیرت کے نام پر قتل و تشدد کی 409 شکایات درج کی گئیں۔

اعداد و شمار کے مطابق ریاست اتر پردیش میں سب سے زیادہ 16ہزار 109 شکایات، اس کے بعد دہلی میں 2ہزار 411 اور مہاراشٹرا میں 1343، بہار میں 1312، مدھیہ پردیش میں 1165، ہریانہ میں 1115، راجستھان میں 1011، تمل ناڈو میں 608، مغربی بنگال میں 569 اور کرناٹک میں 501 شکایتیں درج کی گئیں۔

اسی طرح 2022 ء میں بھی کل 6 لاکھ جرائم میں سے 71 فیصد خواتین کے خلاف تھے۔ 2021 ء میں 31ہزار 677 زیادتی، 76ہزار 263 اغوا اور 30ہزار 856 گھریلو تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے ۔2018 ء میں بھارت خواتین کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سرِ فہرست تھا۔انڈیا ٹو ڈے کی رپورٹ کے مطابق روزانہ سفر کرنے والی خواتین میں سے 80 فیصد کو ہراساں کیا جاتا ہے ۔ زیادتی اور ہراساں کیے جانے کے کیسوں میں دہلی سرِ فہرست ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہراساں کرنے اور اجتماعی زیادتی کے واقعات اس لیے نہیں رک پارہے ہیں کیوں کہ بااثر مجرموں کو نہ صرف رہا کردیا جاتا ہے بلکہ سیاسی جماعتیں ان کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور رہائی کے بعد ان کا سماجی خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ زیادتی کے واقعات کے ختم نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ عدالتی فیصلوں میں تاخیر بھی ہے۔ عام طور پرزیادتی کا شکار ہونے والی خواتین پولیس کے پاس جانے اور کورٹ کچہری کے چکر لگانے سے ڈرتی ہیں ،جس کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کی بڑی تعداد منظر عام پر نہیں آتی۔ جو خواتین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کی کوشش کرتی ہیں انہیں عدالتوں میں بے جا الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ملزمان قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر صاف بچ جاتے ہیں۔