کتاب اور خود کشی

689

ہماری قوم نے دو کام خوب سیکھ لیے ہیں، ایک ماتم اور دوسرا جواز جوئی۔ ماتم کی نفسیات یہ ہے کہ ہم نے ماتم کر لیا تو گویا ہر ذمے داری اور فرض سے سبکدوش ہو گئے۔ جواز جوئی کی نفسیات یہ ہے کہ ہم اپنی کوتاہی غفلت یا جرم کے اعتراض پر آمادہ نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ امر کوئی راز نہیں رہتا کہ ہمارے معاشرے میں پڑھنے پڑھانے یا مطالعے سے گریز کا رجحان تیزی کے ساتھ وسعت کیوں اختیار کر رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر کچھ لوگ اس سلسلے میں صرف ماتم کر کے رہ جائیں گے اور اس سے کچھ زیادہ لوگ جواز بازی میں مصروف ہو جائیں گے تو پھر جو کچھ ہو رہا ہے وہی ہوگا اور وہی ہوتا رہے گا۔

ذرا غور کیجیے کہ لوگوں نے مطالعے سے گریز کے لیے کیسے خوبصورت جواز تراشے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ کیا کریں زندگی بہت مصروف ہو گئی ہے، پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔ کسی کا خیال ہے کہ اصل مسئلہ تو ٹیلی ویژن اور ابلاغ کے ایسے ہی دوسرے ذرائع ہیں۔ جب تک ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا لوگ کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لیتے تھے، مگر اب ٹیلی ویژن نے ان کے وقت کو اُچک لیا ہے۔ کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ یہ باتیں تو سرسری اور جزوی ہیں اصل مسئلہ تو گرانی ہے۔ کتاب مہنگی ہو گئی ہے، چنانچہ اسے خریدتے وقت دس بار سوچنا پڑتا ہے۔ بلا شبہ ان سب باتوں میں تھوڑی بہت صداقت ہے، لیکن بیش تر لوگوں کا حال بدترین جواز بازی کے سوا کچھ نہیں۔ بلاشبہ زندگی میں نئی مصروفیتیں در آئی ہیں، لیکن زندگی کی مصروفیت کا نعرہ لگانے والے یہ فرض کیے ہوئے ہیں کہ زندگی کی جتنی مصروفیت ٹوکیو، نیویارک یا لندن میں ہے اتنی ہی مصروفیت ہمارے یہاں بھی ہے۔ حالانکہ یہ پاکستان ہے اور یہاں زندگی کی رفتار بہر حال نیویارک یا ٹوکیو کی رفتار جیسی نہیں، ہمارے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں بھی کتنے لوگ واقعتا ’’مصروف‘‘ ہوتے ہیں، لیکن چلیے ان شہروں کے کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پاس وقت کی قلت ہے۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ مطالعے کے معاملے میں چیچو کی ملیاں میں بیٹھا ہوا شخص بھی خود کو ’’مصروف‘‘ قرار دیتا ہے اور وقت کی کمی کی شکایت کرتا ہے۔ خیر ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ زندگی مصروف ہو گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر کرکٹ کے میچ دیکھنے کے لیے اچانک وقت کہاں سے برآمد ہو جاتا ہے۔ چلیے لوگ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ نہیں دیکھتے ہوں گے لیکن اب تو خیر سے ایک روزہ میچوں کی سیریز بھی مہینوں جاری رہتی ہیں اور لاکھوں کیا کروڑوں لوگ ان میں صبح سے شام تک مصروف رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مصروف زندگی ان کے لیے کہاں سے وقت کی نہر نکال دیتی ہے؟ یہ محض ایک مثال ہے ورنہ ایسی مثالوں کا ڈھیر لگایا جا سکتا ہے۔

ٹیلی ویژن اور دوسرے ذرائع کا جواز بھی مذکورہ جواز سے کم بودا نہیں۔ مغربی دُنیا میں ٹیلی ویژن اور دوسرے ذرائع ابلاغ کو گھر گھر پہنچے طویل مدت ہو گئی ہے مگر وہاں کتاب اور اخبارات کے مطالعے کو ان ذرائع نے نقصان نہیں پہنچایا ہے یا اگر کہیں نقصان پہنچا بھی ہے تو برائے نام۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہم ہر مسئلے میں مغرب سے مثال لاتے ہیں مگر اس سلسلے میں جب مغرب کی بات کی جاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ مغرب کے تجربے سے استنباط کرنا غلط ہے۔ مغرب میں خواندگی کی شرح بلند ہے، دَھن دولت کی ریل پیل ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں غلط نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے حالات رکھنے والے بھارت کی صورت حال بھی یہی ہے۔ بھارت میں ٹیلی ویژن وبا بن چکا ہے اور سیکڑوں چینلوں کی یلغار کا منظر ہے۔ لیکن اس کے باوجود مطالعے کا رجحان پہلے جیسا ہے۔ بلا شبہ کتاب مہنگی ہوگئی ہے، اخبارات ورسائل کی قیمتیں بھی بہت بڑھ گئی ہیں لیکن اس سلسلے میں دو باتیں اہم ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ صرف کتاب اور اخبارات و رسائل ہی مہنگے نہیں ہوئے ہیں، ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے۔ لیکن لوگوں نے کیا خریدنا چھوڑا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں… پھر مہنگائی کا رونا رو کر صرف کتاب اور اخبارات و رسائل خریدنا ہی کیوں چھوڑا جائے؟ یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ لوگوں کو پانچ ہزار روپے کا جوتا مہنگا نہیں لگتا لیکن تین سو روپے کی کتاب گراں لگتی ہے۔ لوگ مہینے دو مہینے میں ملکی یا غیر ملکی ریستورانوں پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ کھانے پر آٹھ دس ہزار روپے خرچ کر لیں گے مگر وہ پورے سال میں بھی اتنے پیسوں کی کتابیں نہیں خریدیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کتابیں مہنگی نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ دنیا میں کتاب سے سستی کوئی چیز نہ ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے۔ جب آپ دیوان غالب خریدتے ہیں تو آپ غالب کی روح، اس کا ذہن، اس کے جذبات، اس کے خیالات، اس کے احساسات، اس کے تجربے، اس کی محبت، اس کی تنہائی، اس کی انجمن آرائی، اس کی راتیں، اس کے دن، غرضیکہ سب کچھ خرید لیتے ہیں۔ کیا ہزار ڈیڑھ ہزار روپے میں یہ سب کچھ بہت مہنگا ہے؟ خیر غالب کی مثال تو ایک بڑی مثال ہے۔ لیکن کیا اوسط درجے کے شاعر، ادیب، مفکر فلسفی یا کسی اور شعبے کے ماہر کی کتاب کا معاملہ بھی یہی نہیں ہے۔ کیا ایک کتاب اپنے لکھنے والے کی زندگی کا حاصل نہیں ہوتی۔ کیا اس حاصل کی کوئی قیمت لگائی جاسکتی ہے؟ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم کتاب کو اس طرح دیکھتے ہی نہیں۔ ہم اسے برگر، آئس کریم اور جوتے کی طرح ایک شے سمجھتے ہیں، اس لیے وہ ہمیں مہنگی محسوس ہوتی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کتاب اگر بہت مہنگی ہو جائے تو بھی وہ سستی ہی رہے گی۔ بہر حال اب اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟

مسئلہ ایک نہیں بلکہ کئی مسئلے ہیں، مثلاً ایک بات تو یہی ہے تعلق ہمارے لیے بار ہو چلا ہے اور ہم تعلق کے بجائے ’’تعلقات‘‘ کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ ہم صرف انسانوں سے نہیں بلکہ خدا، مذہب اور معاشرے … غرضیکہ ہر شے سے تعلقات استوار کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا اتھلا پن، ہماری غیر سنجیدگی، ہماری بڑھتی ہوئی ریزہ خیالی، ہمارا سرسری پین غرضیکہ بے شمار مسائل اس مسئلے کا شاخسانہ ہیں۔ بلا شبہ مغرب میں تعلق اور تعلقات کا مسئلہ ہمارے یہاں سے زیادہ سنگین ہے۔ لیکن مغرب کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ جو کچھ ہے اور جو کچھ بن رہا ہے اسے سمجھنا چاہتا ہے۔ لیکن ہم ایسی کوئی خواہش اپنے اندر محسوس نہیں کرتے۔ غور کیا جائے تو کتاب اور مطالعے کا مسئلہ ان تمام امور سے براہ راست متعلق ہے۔ کتاب ہمیں زندگی کے بنیادی سوالات اور مسائل کے رو بر ولاتی ہے اور ہم سے ایک تعلق اور ایک سنجیدگی کا مطالبہ کرتی ہے، لیکن ہماری جو حالت زار ہے اس میں اپنے وجود کی آگہی ایک بہت تکلیف دہ عمل بن گئی ہے۔ ہم اس تکلیف سے خوف کھاتے ہیں لیکن اس تکلیف سے بھاگا نہیں جاسکتا۔ ہمیں اگر زندہ رہنے کی طرح زندہ رہنا ہے تو ایک دن اس تکلیف سے گزرنا ہوگا۔ یہاں ایک بات کا ذکر نا گزیر ہے۔ یہ بات اس سوال سے پیدا ہوئی ہے کہ ہم اتنے اتھلے، اتنے غیر سنجیدہ، حقائق کے اعتراف سے اتنے گریزاں کیوں ہیں اور مغرب اخلاقی اور مذہبی اعتبار سے تمام تر ابتری کے باوجود خود کو سمجھنے میں کیوں مصروف ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہے۔ اصل میں قصہ یہ ہے کہ اہل مغرب سمجھتے ہیں کہ ان کا ایک مستقبل اور ایک تقدیر ہے۔ ہر چند کہ تہذیبی طور پر مغرب کے زوال کی پیش گوئیوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، لیکن سیاسی، معاشی، سائنس اور تکنیکی غلبہ اہل مغرب کو بتا رہا ہے کہ تمہاری ایک تقدیر ہے، تمہارا ایک مستقبل ہے، اور جب کسی کا مستقبل اور تقدیر ہوتی ہے تو وہ اپنے سلسلے میں بہت سنجیدہ ہوتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک قوم اور ایک ملت کی حیثیت سے اپنا کوئی مستقبل نہیں دیکھتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہمارا کوئی مستقل نہیں اس لیے خود کو سمجھنے کی بھی ضرورت نہیں، سنجیدگی بھی فضول ہے، اجتماعی ذمے داری کے تصور کی بھی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ جو ہو رہا ہے اسے ہونے دو۔ آپ نے دیکھا؟ اس ایک مسئلے کی جڑیں کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں؟ بلاشبہ اس مسئلے کو دیکھنے کا یہ واحد زاویہ نہیں۔ اس کا تجزیہ اور کئی زاویوں سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن مذکورہ زاویہ ایک ایسا زاویہ ہے جس کا شعور عام نہیں۔

معاف کیجیے گا، کالم کے اختتام تک آتے آتے ایک اچھی خاصی ماتمی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ لیکن یہ تو ہونا ہی تھا۔ آخر ہم بھی اس قوم کا حصہ ہیں۔ مگر جناب ماتم اور جواز بازی سے بات نہیں بنے گی۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ خودکشی حرام ہے اور خود کشی صرف یہی نہیں ہے کہ خود کو مار لیا جائے، اپنی روح، اپنے ذہن اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو مار لینا اور ان کے زندہ اور توانا رہنے کے لیے اسباب مہیا نہ کرنا بھی خودکشی ہے۔